بھارتی سپریم کورٹ نے شہریت قانون پر عملدرآمد روکنے کا مطالبہ مسترد کردیا

نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے نئے شہریت قانون پر عملدرآمد روکنے کے مطالبے کو مسترد اور حکومت کو مزید دیتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کا پانچ رکنی بینچ تمام تر اعتراضات کا جائزہ لے گا.بھارتی نشریاتی ادارے کے مطابق اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا ماننا ہے کہ اس میں مسلمانوں سے تعصب کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس پر اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے 144 درخواستیں دائر کی گئی تھیں تاہم عدالت نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو ان درخواستوں کا جواب دینے کے لیے 4ہفتوں کا وقت دے دیا ہے.دسمبر میں پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد 10جنوری کو یہ بل قانون بن گیا تھا جس کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والی 6مذہبی اقلیتوں کو بھارت میں پناہ کا حق حاصل ہو گیا تھا تاہم ان چھ مذاہب کی فہرست میں مسلمان شامل نہیں.ماہرین اور ناقدین نے اس قانون سے مسلمانوں کے اخراج کے فیصلے کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت قانون بنانا بھارت کے سیکولر تشخص کی نفی ہے اپوزیشن راہنماﺅں، مسلمان جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ ساتھ طلبا کے گروپس نے بھی عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے اس قانون پر معاملہ عدالت سے حل ہونے تک عملدرآمد روکنے کی درخواست دی تھی.تاہم تین رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس اروند بوبڈے نے کھچا کھچ بھرے کمرہ عدالت میں کہا کہ پانچ ججوں کا آئینی بینچ ہی اس معاملے پر فیصلہ کر سکتا ہے اور اس دوران حکومت کو اپنے موقف کی وضاحت کے لیے مزید وقت دے دیا چیف جسٹس نے حکومت کے وکیل کو کہا کہ ہم تمام درخواستوں پر جواب جمع کرانے کے لیے آپ کو 4ہفتوں کا وقت دیتے ہیں اور عندیہ دیا کہ مقدمے کی اگلی سماعت فروری کے اواخر میں ہو گی.اس قانون کی حمایت میں کمر بستہ حکومت کا موقف ہے کہ اس قانون کے ذریعے ہندو، سکھ اور عیسائیوں جیسی مذہبی اقلیتوں کو فائدہ ہو گا کیونکہ انہیں مسلم اکثریت ملکوں میں متعصبانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے گزشتہ ماہ احتجاج کا گڑھ رہنے والے بھارتی ریاست آسام کی طلبا تنظیم نے اس معاملے پر اپوزیشن جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے آل آسام اسٹوڈنٹ یونین کے جنرل سیکرٹری لورن جیوتی گگوئی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم جمہوری طریقے سے عدم تشدد پر مبنی احتجاج کے ساتھ قانونی جنگ لڑنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے.خیال رہے کہ بھارت میں گزشتہ ماہ بننے والے متنازع شہریت قانون کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی اس قانون کے خلاف مضبوط آواز بن کر سامنے آئی ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ ان کی ریاست میں یہ قانون ان کی لاش پر سے گزر کر ہی نافذ ہوگا.بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مختلف ریاستوں میں احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے متنازع شہریت قانون کے خلاف طلبہ اور مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے ہزاروں شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے.