پاکستان میں 30 ارب ٹن کے معدنیات کے قیمتی ذخائر پائے جاتے ہیں

اسلام آباد :ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 30 ارب ٹن کے ماربل ، گریناءٹ اور دیگر معدنیات کے قیمتی ذخائر پائے جاتے ہیں ۔اگر مناسب توجہ دی جائے اور مطلوبہ سہولیات فراہم کی جائیں تو اس شعبے میں سرمایہ کاری اور روزگار کی فراہمی کے وسیع مواقع ہیں ۔ مقرین نے ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام ’پاکستان میں ماربل اور گریناءٹ سیکٹر کے لئے ترجیحی اصلاحات‘ کے عنوان سے ایک راونڈ ٹیبل سے کیا ۔ اس موقع پر پاکستان اسٹون ڈویلپمنٹ کمپنی (پاسڈیک) کی چیئرپرسن شماما ارباب نے کہا کہ خاطر خواہ برآمدی صلاحیت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ماربل اور گریناءٹ سیکٹر کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس شعبے کو ٹیکس اور دیگر سہولیات فراہم کی جانی چاہیں ، تاہم اس صنعت کو بین الاقوامی حفاظتی معیار کو اپناتے ہوئے اپنے مزدوروں کی حفاظت کا بھی خیال رکھنا چاہئے ۔ جوائنٹ ایگز یکیٹو ڈائریکٹر ، ایس ڈی پی آئی، ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ پا کستان میں جدید ٹکنالوجی کی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے معدنی ذخائر نہیں نکا لے جا سکے جس کے باعث ماربل اور گریناءٹ سیکٹرز خاطر خواہ فروغ نہ پا سکے ۔

انہوں نے کہا کہ دھماکا خیز مواد کے ذریعے ذخائر کو نکالنے کا طریقہ کار ماحولیاتی آلودگی کے لیے خطر ناک ہے اور قیمتی ذخائر کے ضیاع کا باعث بھی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پالیسیوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ پاکستان اسٹون ڈویلپمنٹ کمپنی (پاسڈیک) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) زاہد مقصود نے کہا کہ ہندوستان 919 ملین ڈالر مالیت کے گراناءٹ کا دنیا میں سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور ترکی 2 بلین ڈالر کا ماربل برآمد کرنے میں سرفہرست ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 60 ملین ڈالر کی مجموعی برآمدی کے ساتھ دنیا میں بہت پیچھے ہے ۔ نجی شعبے کے نمائندوں اور فیکٹری مالکان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دھماکا خیز مواد کے ذریعے ذخائر کو نکالنے کے طریقہ کار پر پابندی عائد کی جائے ، مکینائزمائننگ کو فروغ دیا جائے ، زیرو کسٹم ڈیوٹی کی جائے، خام مال کی درآمد کی حوصلہ شکنی کی جائے، اور تکنیکی ترقی میں حوصلہ افزائی کی جائے ۔راونڈ ٹیبل میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیف آف ایکسپورٹ، اقبال منیب، ڈپٹی ڈائریکٹر، ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) اُنسیا ظفر، شاہد علی خان، ڈائریکٹر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور نجی شعبے کے نمائندوں اور فیکٹری مالکان نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔