آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو پھر مسترد کردیا

نئی دہلی:بھارت میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ‘آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ’ نے بھارتی لاء کمیشن کے نام اپنے مکتوب میں یکساں سول کوڈ کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ ”ہندواکثریتی طبقے کی اخلاقیات” سے اقلیتی برادریوں خصوصا مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور ان کے حقوق کو زیر نہیں کیا جانا چاہیے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے 100صفحات پر مشتمل ایک خط لاء کمیشن کو بھیجا ہے، جس میں کہا گیا، ”کسی یکساں سول کوڈ کے نام پر جو اب بھی ایک معمہ ہے، پرسنل لاء ، مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق پر، اکثریت کی اخلاقیات کو بالا دستی حاصل نہیں ہونی چاہیے۔”بھارتی لا کمیشن نے 14جون کویکساں سول کوڈ کے مسئلے پر عوام سے آرا طلب کی تھیں، جس کے جواب میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنا مکتوب کمیشن کو ارسال کیا ہے۔ خط میں کہاگیا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایک اجلاس میں اس مسلئے پر غوروخوص کے بعد اپنی تجاویز کمیشن کو بھجوائی ہیں،جس کے کے مطابق ا سلامی شریعت بھارتی مسلمانوں کی شناخت ہے۔خط میں دلیل دی گئی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کا پرسنل لاء ”براہ راست قرآن اور سنت سے ماخوذ شرعی قوانین پر مبنی ہے جو انکی شناخت سے جڑا ہوا ہے۔خط میں مزیدکہا گیاہے کہ بھارت میں مسلمان اپنی اس شناخت کو کھونے کے لیے راضی نہیں ۔ اگر بھارت میں اقلیتوں اور قبائلی برادریوں کو ان کے ذاتی قوانین کے تحت زندگی بسر کرنے کی اجازت دی جائے تو اس سے ملک کے تنوع کو برقرار رکھنے کے علاوہ قومی سا لمیت، تحفظ، سلامتی اوربھائی چارے کو بھی بہترین تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔خط میں مزید کہاگیا کہ بھارتی آئین میں یکساں سول کوڈ کے حوالے سے صرف ایک جملہ درج ہے۔ آئین کی دفعہ 44میں کہا گیا ہے کہ ”ریاست یہ کوشش کرے گی کہ ملک بھر میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضمانت ہو۔”ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندو ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے اپنے انتخابی منشور میں جو چار اہم وعدے کیے تھے،ان میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ بھی شامل تھا ۔بورڈ نے خط میں کہاکہ بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد ان میں سے تین یعنی جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی ، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کا وعدہ پورا کر دیا۔ اب بھارت بھر میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا آخری اہم وعدہ پورا کرنا باقی رہ گیا ہے اور بی جے پی نے اس کے نفاذ کا نیا شوشہ چھیڑ دیا ہے۔ا س حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان کے بعد بحث اور بھی تیز ہوگئی ہے۔ گوکہ اس کے نفاذ سے بہت سے ہندو اور دیگر فرقے اور بالخصوص قبائلی بھی متاثر ہوں گے لیکن بھارتی مسلمان اسے ایک نئی مصیبت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی موجودہ سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مودی حکومت خود بھی یکساں سول کوڈ کو فوری طورپر نافذ کرنا نہیں چاہے گی اور اس نے اس اقدام کے خلاف آنے والے ردعمل کا اندازہ لگانے کیلئے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات کی ہے ۔ اس دوران ہندوتواتنظیم آر ایس ایس سے وابستہ بعض دیگر تنظیموں نے بھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت کی ہے۔