قومی اقتصادی سروے 23-2022 جاری کردیا گیا

اسلام آباد:وفاقی حکومت نے رواں مالی سال 23۔2022 کا اقتصادی سروے جاری کر دیا ہے جس کے تحت معاشی شرح نمو 0.29 ، زرعی شعبہ کی نمو 1.55 فیصد، صنعتی شعبہ کی منفی 2.94 فیصد، خدمات کے شعبہ کی شرح نمو 0.86 فیصد رہی، جولائی سے مئی 2023 تک افراط زر کی شرح 29.9 فیصد ریکارڈ کی گئی، محصولات کی وصولی میں 18.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے،مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 4.6 فیصد رہا، کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں 76 فیصد ، تجارتی خسارہ میں 40.4 فیصد ، درآمدات میں 29.2 فیصد اور برآمدات میں 12.1 فیصد ، ترسیلات زر میں 13 فیصد اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 23.2 فیصد کی کمی رہی۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال اور اقتصادی ٹیم کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اقتصادی سروے جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنی ترجیحات کو روایتی ترقیاتی تصور سے ہٹا کر ایکویٹی، امپاورمنٹ، انوائرنمنٹ اور انرجی (5 ایز)کا احاطہ کرنے والے فریم ورک پر مذکور کر دی ہیں جو کہ موجودہ چیلنجز پر قابو پانے اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ موجودہ مالی سال 2023 بیرونی اور ملکی عوامل کے حوالے سے ایک مشکل اور چیلنجنگ سال رہا ہے، حکومت نے مجموعی معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئےہیں۔موجودہ حکومت میکرو اقتصادی استحکام کی بحالی اور معیشت کو جامع ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور سرمایہ داروں کا اعتماد بڑھانے کے لئے پر عزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو معیشت کو کئی مشکلات کا سامنا تھا، سکڑتی مالیاتی پوزیشن ، مہنگائی کا بوجھ ، بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ، بڑھتی ہوئی اندرونی اور بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ، شرح تبادلہ اور توانائی کے شعبے میں موجود بحران جیسے کئی بڑے مسائل کا سامنا تھا، مالی سال 2022 میں گو کہ 6.10 فیصد کی شرح نمو ملی لیکن اس کا برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس کی وجہ سے میکرو اقتصادی عدم استحکام پیدا ہو گیا تھا، معیشت کی غیر معمولی تیزی کی وجہ سے تجارتی اور مالیاتی خسارہ نے معیشت کو تباہ ہونے کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔مالیاتی خسارہ کے تناسب سے 5.8 (2018) فیصد سے بڑھ کر 2022 میں 7.9 فیصد پر پہنچ گیا تھا۔مالی سال 2018 میں تجارتی خساره 30.9 ارب ڈالر تھا جو بڑھ کر 39.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.7 فیصد یعنی 17.5 ارب ڈالر تک بڑھ گیا تھا۔ براه راست بیرونی سرمایہ کاری 2.8 ارب ڈالر سے کم ہو کر 1.9 ارب ڈالر پر آگئی۔ ایف بی آر کے محصولات 9.8 فیصد سے کم ہو کر جی ڈی پی کے 9.2 فیصد پر آگئے ۔شرح سود 6.5 فیصد سے بڑھ کر 13.75 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔گردشی قرضہ 1148 ارب روپے سے بڑھ کر 2467 ارب روپے پر پہنچ چکا تھا۔ سرکاری قرضے 63.7 فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے تناسب سے 73.9 فیصد پر پہنچ چکا تھا۔ کل حکومتی قرضہ جو 2018ء میں 25 کھرب تھا، پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں 19 کھرب روپے کا اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 49.2 کھرب روپے (جون 2022 ) پر پہنچ گیا ۔ پی ٹی آئی کے دور میں ملکی قرضوں میں تقریباً 97 فیصد کا اضافہ ہوا۔ مجموعی قرضہ اور ادائیگیاں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں یہ 29.9 کھرب سے بڑھ کر تقریباً 100 فیصد کے اضافے کے ساتھ 59.8 کھرب پر پہنچ گیا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے حکومت چھوڑنے سے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط پر عملدرآمد نہیں کیا بلکہ جو معاہدہ کیا گیا تھا اس کے برعکس کام کئے جس کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی، ایسی ہی پالیسیوں کے نتیجے میں موجودہ حکومت کو جو معیشت ورثہ میں ملی وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔
اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال 2023 میں معاشی ترقی کی شرح نمو 0.29 فیصد رہی۔ زراعت کے شعبے میں 1.55 فیصد صنعتی شعبے میں منفی 2.94 فیصد جبکہ خدمات کے شعبے میں شرح نمو 0.86 فیصد رہی ۔ سیلاب کی تباہ کاریاں، بین الاقوامی کساد بازاری، اور سخت اقتصادی فیصلوں /پالیسیوں کی وجہ سے معاشی شرح نمو میں کمی واقع ہوئی۔ جولائی تا مئی 2023 اوسط افراط زر 29.2 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ مہنگائی کی بڑی وجہ بین الاقوامی سطح پر تیل، دالیں اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ عالمی رسد میں خلل، سیلاب کی وجہ سے اہم فصلوں کا ضیاع، سیاسی عدم استحکام اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔جولائی تا مئی مالی سال 2023 کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ٹیکس محصولات میں 16.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اور یہ گزشتہ مالی سال کے 5,348.2 ارب روپے کے مقابلے میں 6210 ارب روپے ریکارڈ ہوئے۔ مختلف ٹیکس پالیسیوں میں بہتری اور انتظامی اصلاحات حکومتی محصولات بڑھانے میں معاون ثابت ہوئیں۔ ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لئے علاقائی دفاتر میں نئے ٹیکس دہندگان کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئےجس کی وجہ سے ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے 9ماہ میں 7 لاکھ ٹیکس دہندگان کے ہدف کے مقابلے میں تقریباً 9 لاکھ 12 ہزار نئے ٹیکس دہندگان کو رجسٹر ڈ کیا ہے۔رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو کہ پچھلے مالی سال کے اسی عرصے دوران 4.9 فیصد تھا۔رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران پرائمری بیلنس 99 ارب روپے سرپلس رہا جو کہ پچھلے مالی سال کے اسی عرصے میں 890 ارب روپے خسارے میں تھا۔ جولائی تا اپریل 2023 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں 76 فیصد کمی ہوئی اور یہ کم ہو کر 3.3 ارب ڈالر پر آ گیا جو گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 13.7 ارب ڈالر تھا۔جولائی تا مئی 2023 کے دوران تجارتی خسارہ 40.4 فیصد کی کمی کے ساتھ 25.8 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو کہ گذشتہ مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں 43.4 ارب ڈالر تھا۔ جولائی تا مئی موجودہ مالی سال 2023 کے دوران درآمدات میں 29.2 فیصد کی کمی ہوئی اور یہ گذشتہ مالی سال کے پہلے 11 ماہ کے دوران 72.3 ارب ڈالر کے مقابلے میں مقابلے میں کم ہو کر 51.2 ارب ڈالر پر آگئیں۔جولائی تا مئی موجودہ مالی سال 2023 کے دوران برآمدات میں 12.1 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی اور یہ پچھلے مالی سال کے 28.9 ارب ڈالر سے کم ہو کر 25.4 ارب ڈالر پر آ گئیں۔ رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران ترسیلات زر 13 فیصد کمی کے ساتھ 22.7 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں جو کہ پچھلے مالی سال کے اسی عرصے میں 26.1 ارب ڈالر تھیں۔ جولائی تا اپریل موجودہ مالی سال 2023 کے دوران غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری میں 23.2 فیصد کی کمی ہوئی اور یہ کم ہو کر 1170.1 ملین ڈالر پر آ گئی۔ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 1533.7 ملین ڈالر ریکارڈ ہوئی تھی۔