خیبر پختو نخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی میں 32 کروڑ78 لاکھ کی سنگین بے قاعدگیاں

پشاور:آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے22-2021 کے دوران خیبر پختو نخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے معاملات میں 32 کروڑ78 لاکھ روپے کی سنگین بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا سراغ لگایا ہے،اس میں دھوکہ دہی،جعلی،غیر قانونی، غیر ضروری، غیر مجاز،شاہانہ ادائیگیاں اور فنڈز کا غلط استعمال شامل ہے،اتھارٹی نے دبئی ایکسپو2020 کے دوران ایک کروڑ 31 لاکھ روپے کی ناقص یو ایس بی تقسیم کیں جس سے ملک کی بدنامی ہوئی،آڈیٹرز نے اتھارٹی کے74 اہلکاروں کی تقرری میں بھی بے ضا بطگیوں کا پتہ لگا یا ہے،آڈٹ میں ذمہ داروں کے خلاف برطرفی اور تادیبی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ کے پی سی ٹی اے کے ایک اہلکار نے ذرائع کو بتایا کہ آڈٹ رپورٹ فائنل میٹنگ کے بغیر پیش کی گئی، جسے محکمہ آڈٹ کے سابقہ ​​طرز عمل سے انحراف کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ حکام کو ایک خط بھیجا گیا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو ہدایت دیں کہ وہ طریقہ کار کے مطابق پیراز پر تبادلہ خیال کریں اور اتھارٹی کو اپنا سرکاری موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ محکمانہ کمیٹی کے اجلاس میں بیشتر اعتراضات دور ہو جائیں گے،رپورٹ کے مطابق دبئی ایکسپو 2020 کے لیے ایک کروڑ 31 لاکھ روپے کی 15,000 یو ایس بی خریدی گئی تھیں۔ انسپکشن کمیٹی نے تکنیکی خرابی کی وجہ سے پوری سپلائی کو مسترد کر دیا تھا، لیکن دبئی ایکسپو میں وہی تقسیم کردیا گیا۔ آڈٹ میں کہا گیا کہ تین رکنی انسپکش ٹیم نے یو ایس بی کو مسترد کر دیا تھا اس لیے رقم کی ادائیگی دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں ہے، جس کی مناسب تحقیقات کی ضرورت ہے. آڈٹ کا خیال ہے کہ ثقافت کو فروغ دینے کے بجائے ٹورازم اتھارٹی نے صوبے کے تشخص کو بدنام کیا۔دبئی ایکسپو کے دوران، 10 افسروں نے اپنے استحقاق سے زائد غیر ملکی ٹی اے/ڈی اے وصول کیا، جن میں ایم ڈی کامران آفریدی، یوسف علی، سجاد حمید، امجد خلیل، حسینہ شوکت، مہد حسنین، وقار احمد، انیق مجید، سعد بن اویس اور عامر خان شامل ہیں۔ اتھارٹی کے اہلکار 30 فیصد ڈی اے کا حقدار تھے، لیکن انہوں نے 100 فیصدیومیہ الاؤنس نکالا، اس طرح قومی خزانے کو 8.596 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ آڈٹ میں حکام سے اضافی رقم کی وصولی کی سفارش کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دبئی ایکسپو میں ایونٹ مینجمنٹ کا ٹھیکہ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو دیا گیا تھا۔ کمپنی ایف بی آر میں بطور ایڈورٹائزنگ کمپنی رجسٹرڈ ہے، اور مذکورہ فرم پہلے ہی کے پی سی ٹی اے کے ساتھ بطور ایڈورٹائزنگ ایجنسی کام کر رہی ہے۔ اس لیے ایونٹ مینجمنٹ کا ایوارڈ غیر منصفانہ تھا۔ گلوکاروں اور اینکرز کو معاوضے کی ایک بڑی رقم دی گئی۔ ایک گلوکار کو ایک دن کے لیے 30 لاکھ روپے ادا کیے گئے۔ آڈٹ تحقیقات اور مناسب کارروائی کی سفارش کرتا ہے۔یہ دیکھا گیا کہ ایونٹ مینجمنٹ فرم گلوکاروں اور ثقافتی گروپ کو معاوضے سمیت ضروریات کے شیڈول کے مطابق اشیاء کے انتظامات کی ذمہ دار تھی۔ ایجنسی کی جانب سے جمع کرائے گئے کوٹیشن میں ڈانس گروپس، اینکر پرسنز اور گلوکاروں کو ادا کیے جانے والے معاوضے بھی شامل ہیں لیکن دوسری جانب انتظامیہ نے ان گلوکاروں اور فنکاروں کے لیے اے ڈی پی سے 26 لاکھ روپے سے زائد ڈرافٹ کی شکل میں نکال لئے، اس طرح انتظامیہ نے دوہری ادائیگی کی اور آڈٹ نے ادائیگی کی وصولی کی سفارش کی۔ رپورٹ کے سکروٹنی کمیٹی کو بھرتی کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری سونپی گئی۔ لیکن کمیٹی نے 55 امیدواروں کی بھرتی میں سنگین تضادات کی نشاندہی کی لیکن انتظامیہ نے رپورٹ کو نظر انداز کیا اور مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والے امیدواروں کو تعینات کیا۔ ان میں جی ایم انویسٹمنٹ، منیجر کلچر، ڈپٹی منیجر ریسرچ، ڈپٹی منیجر ٹورازم، کنٹریکٹ اسپیشلسٹ اور دیگر شامل ہیں۔ ان کو بھرتی کرنے کے لیے غیر متعلقہ تجربہ استعمال کیا گیا۔ کوتاہیاں جانبداری اور میرٹ کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہوئیں۔ آڈٹ میں ملازمین کی برطرفی اور ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 13 کلریکل سٹاف اور 15 درجہ چہارم کا عملہ پشاور کے بجائے دوسرے اضلاع سے تعینات کیا گیا۔ جبکہ مقامی افراد کی حق تلفی ہوئی،آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی ٹی اے اتھارٹی محض نوکری فراہم کرنے والا ادارہ بن گیاہے جس نے سیاحت اور ثقافت کے فروغ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا،169 سرکاری ریسٹ ہاؤسز میں سے صرف 17 کو لیز پر دیا گیا۔ اسی طرح وفاق سے ملنے والے پی ٹی سی ہوٹلز اور موٹلز نہ تو آپریشنل کئے گئے اور نہ ہی لیز پر دیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ایک کمپنی کو مختلف آئی ٹی آلات (لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ، لیزر پرنٹرز وغیرہ) کی فراہمی کے لیے 19.525 ملین روپے کا ورک آرڈر جاری کیا گیا بولی میں صرف اسی کمپنی نے حصہ لیا،کمپنی ایک طویل عرصے سے اتھارٹی کے ساتھ فریم ورک کنٹریکٹر کے طور پر کام کر رہا تھا،رپورٹ کے مطابق
ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ نے ایک مخصوص کمپنی کی حمایت کی کیونکہ آئی ٹی آلات فراہم کرنے والی کمپنیاں موجود ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف ایک بولی دہندہ نے بولی جمع کرائی، اسسٹنٹ گریڈ16 کی آسامی کے لیے اشتہارات جاری ہو ئے جس میں کم از کم تین سال کا تجربہ طلب کیا گیا تھا، حالانکہ قانون کے تحت پانچ سال کا متعلقہ تجربہ کمپیوٹر کی مہارت کے ساتھ درکار تھا۔اسسٹنٹ کے عہدے پر چار افسروں کے پاس کم یا غیر متعلقہ تجربہ تھا اس لئے ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منظور نظر افراد کو بھرتی کرنے کیلئے قواعد میں نرمی کی گئی، اتھارٹی نے بغیر کسی منظوری کے لگژری گاڑیوں کو ایک پول پر رکھا اور ان کا مجاز اتھارٹی نے غلط استعمال کیا ، گاڑیاں واپس بھجوانی کی بجائے غیر قانونی استعمال کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق کہ ڈی جی کے زیر استعمال دو گاڑیاں ہنڈا سوک اور ٹویوٹو فارچونر تھیں حالانکہ قواعد کے مطابق سرکاری افسران قطع نظر اس کے کہ ان کے عہدے یا حیثیت سے صرف ایک گاڑی استعمال کرنے کے حقدار ہوں گے، اس لیے دو گاڑیوں کا استعمال غیر مجاز تھا۔ مزید یہ کہ ڈی جی نے پٹرول کی مقررہ حد سے زیادہ ماہانہ مقامی ڈیوٹی کے لیے استعمال کیا،ڈی جی کو ماہانہ150 لیٹر کی اجازت تھی لیکن انہوں نے ماہانہ 500 لیٹر کی حد مقرر کی یوں ماہانہ 350 لیٹر پٹرول استعمال کر کے قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو ئے،جنریٹر آپریٹر کی طرف سے فراہم کردہ سرٹیفکیٹ کے مطابق جنریٹر کی زیادہ سے زیادہ حقیقی کھپت 16 لیٹر فی گھنٹہ تھی۔ اکتوبر 2021 سے جون 2022 تک لاگ بک کی تصدیق سے معلوم ہوا کہ 220 گھنٹے چلا اور اس نے7,955 لیٹر ڈیزل استعمال کیا گیا۔شندور پولو فیسٹیول کیلئے چھ کروڑ روپے مختص تھے لیکن اس پر 9 کروڑ 99 لاکھ روپے خرچ کئے گئے جو غیر قانونی تھے،آڈیٹرز کے مطابق مانٹیرنگ ٹیم نے اخراجات پر سنجیدہ اعتراضات اٹھائے جس میں خیمہ بستی میں مہمانوں کو ناقص سہولیات کی فراہمی بھی شامل ہے۔