گوادر پورٹ آپریشنل کر دیا گیا

اسلام آباد:وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں سی پیک منصوبہ پاک چین’’آل ویدر اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ‘‘ اولین قومی ترجیح بن کر ابھرا ہے، سی پیک اسی رفتار پر واپس آ رہا ہے جو 2013-18 میں اس کی پہچان تھی نئے اقدامات بھی شروع کیے جا رہے ہیں، ایم ایل ون اور کراچی سرکلر ریلوے منصوبوں پر تیزی سے کام کرنا حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے 11 ویں اجلاس کے افتتاحی سیشن کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ اجلاس میں وائس چئیرمین این ڈی آر سی کے لن نین شیو نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ چین اورپاکستان کے اعلیٰ حکام جے سی سی اجلاس میں سی پیک کے تحت مختلف منصوبے پیش کریں گے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ مشترکہ سی پیک جے سی سی میں آٹھویں بار شرکت کرنے پر بے حد خوشی ہورہی ہے ، مجھے پہلی سے ساتویں جے سی سی میٹنگ کی صدارت کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے،وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں سی پیک پاک چین “آل ویدر اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ” اولین قومی ترجیح بن کر ابھرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کمیشن (این ڈی آر سی) کا شکر گزار ہوں، جس کے ساتھ حکومت پاکستان نے سی پیک کو بین الاقوامی سطح پر انتہائی اہمیت کا حامل بنانے کے لیے کام کیا ، یہ انتہائی اطمینان بخش بات ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی مضبوط اقتصادی پارٹنرشپ میں ڈھل رہی ہے ، آئرن برادر کا رشتہ صدا بہار تعاون پاک چین دوستی کی پہچان ہے ۔احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں غیر معمولی بارشوں کی صورت میں بد ترینر قدرتی آفت کا مشاہدہ کیا ہے، جس سے ایک تہائی پاکستان پر سیلاب آ گیا ہے، قدرتی آفت سے 1700 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں، 2.2 ملین مکانات کو نقصان پہنچا، 1.16 ملین مویشی ضائع ہوئے اور لاکھوں لوگ اپنے روزگار سے محروم ہوئے، ہمیشہ کی طرح چین کی حکومت اور کمپنیاں فراخدلی کے ساتھ سیلاب زدگان کے لیے امداد فراہم کرنے میں سب سے آگے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کو اب سیلاب سے شدید متاثر لوگوں اور علاقوں کی بحالی کا ایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے، ہمارے نقصان کی ضرورت کا تخمینہ 30 بلین امریکی ڈالر سے زائد ہے ، اس پیمانے پر تباہی سے بحالی کسی بھی ملک کے لیے اپنے طور پر ممکن نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ سی پیک اسی رفتار پر واپس آ رہا ہے جو 2013-18 میں اس کی پہچان تھی،نئے اقدامات بھی شروع کیے جا رہے ہیں، توانائی کے شعبے میں 880 کلومیٹر طویل HVDC ٹرانسمیشن لائن کے ساتھ 6370 میگاواٹ سے زیادہ کے 11 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں، تقریباً 1200 میگاواٹ کے مزید تین منصوبے 24 ۔ 2023 کے اندر مکمل ہونے کی امید ہے، توانائی کے مزید منصوبے جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ ہمارا 17000 میگاواٹ پیداوار کا مطلوبہ ہدف پورا ہو۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کی ایک اور اہم کامیابی تھر میں کوئلے کی کان کنی کی ترقی ہے، جو کئی دہائیوں سے غیر استعمال شدہ تھا،ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر میں تقریباً 888 کلومیٹر کی موٹرویز اور ہائی ویز چینی اور مقامی دونوں فنانسنگ سے تعمیر کی گئی ہیں،کے کے ایچ تھاہ کوٹ سے حویلیاں اہم منصوبوں میں سے ایک ہے جو بین الاقوامی پذیرائی حاصل کر چکا ہے ،احسن اقبال نے کہا کہ گوادر پورٹ کو آپریشنل کر دیا گیا ہے انفراسٹرکچر اور سوشل سیکٹر کے متعدد منصوبے مکمل کیے گئے ہیں جو کہ ایک سمارٹ پورٹ سٹی کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں ۔اب وقت آ گیا ہے کہ سرمایہ کاروں کو فری زون کو آباد کرنے کے ساتھ ساتھ کاروباری ضلع کی ترقی کے لیے منصوبے شروع کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت سی پیک میں نجی شعبہ کے تعاون پر زور دے رہی ہے ،ایم ایل ون اور کراچی سرکلر ریلوے منصوبوں پر تیزی سے کام کرنا حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہیں ،پاکستان ریلوے ایم ایل ون ایک سٹریٹجک منصوبہ ہےجس کے فریم ورک معاہدے پر پہلے ہی دستخط کر چکے ہیں، احسن اقبال نے کہا کہ ایم ایل ون منصوبہ چینی کمپنیوں کے مابین بولی کے عمل کے لیے تیار ہے، جو کہ فریم ورک معاہدے کے تحت ضروری ہے ، میں درخواست کروں گا کہ NDRC اور NRA ایم ایل ون منصوبے پر کام کہ بولی کو فوری طور پر شروع کرنے کے لیے آگے بڑھیں،حالیہ سیلاب نے اس منصوبے کے آغاز کی عجلت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ہم چار ترجیحی صنعتی زونز کی ترقی کی پیش رفت پر کام کر رہے ہیں جن میں رشکئی صنعتی زون، علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی، دھابیجی صنعتی زون اور بوستان صنعتی زون شامل ہیں، ان صنعتی زونز کو چینی صنعتی زونز کی طرز پر قائم کرنے کے لیے، ہمیں آپ کے تکنیکی ماہرین کی مدد اور تعاون درکار ہے۔انہوں نے کہا کہ زرعی تعاون سی پیک کے دوسرے مرحلے کے اہم عناصر میں سے ایک ہے، چین کو پاکستانی زرعی اشیاء کی برآمد کو فروغ دینے کے لیے معاہدوں کو حتمی شکل دی ہے،زرعی شعبے سے وابستہ مصنوعات کے دائرہ کار اور پیمانے کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔چینی اہلکاروں کی حفاظت حکومت کی اولین ترجیح ہے،حکومت پاکستان نے یہاں میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں ،مجھے امید ہے کہ 11ویں جے سی سی سے سی پیک کو ایک نئی توانائی ملے گی، اور یہ سی پیک کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا ،آج ہم جو فیصلے کر رہے ہیں وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں بہت اہم ثابت ہوں گے۔