آئین کے تحت مقننہ اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کے اختیارات اور کردار متعین ہے ،وزیراعظم شہباز شریف

اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ 1973ء کا آئین ملک کی وحدت کی علامت ہے، آئین کے تحت مقننہ اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کے اختیارات اور ان کا کردار متعین ہے، پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے اورفسطائیت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے،یہ گردن کٹ تو سکتی ہے مگر کسی کے سامنے جھک نہیں سکتی۔ جب تک پارٹی اور عوام کا اعتماد حاصل ہے میں ملک کو مسائل سے نکالنے کے لئے اپنی بھرپور کوشش کرتا رہوں گا۔مشکل ترین حالات میں اتحادی جماعتوں کے اصرار پر سیاست کو بچانے کی بجائے ریاست کو بچانے کے لئے وزارت عظمیٰ کا منصب قبول کیا، جوآٹھ سال تک دن رات چور اور ڈاکو کا راگ الاپتا رہا لیکن وہ ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہ کر سکے، اگر ہم نے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہ کہا تو خدانخواستہ یہ ملک شدید مشکلات میں گھِرجائے گا، اللہ کی مہربانی اور اس ایوان کی مدد سے ملک کو مسائل سے نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا، اگر ہم میں اتحاد، یکسوئی اور جذبہ رہا تو ہم ان مسائل سے ملک کو نکالیں گے۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان بھر میں طوفانی بارشوں نے ہر جگہ تباہی پھیلائی، بلوچستان، کراچی، سندھ،کے پی، پنجاب اور چترال سمیت دیگر علاقوں میں بے پناہ انسانی جانوں کا ضیاع اور نقصانات ہوئے۔اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور زخمیوں کو جلد صحت یابی عطا فرمائے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال سے مخلوط حکومت پوری طرح آگاہ ہے، چاروں صوبوں کے ساتھ میٹنگز کر چکا ہوں، جہاں جہاں لوگ جاں بحق ہوئے، لوگوں کی املاک کو نقصانات پہنچے وہاں تمام صوبائی حکومتیں امدادی کارروائیاں کر رہی ہیں، وفاقی حکومت بھی این ڈی ایم اے کے ذریعے امدادی کارروائیوں میں شریک ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ جتنی بھی رقم زیادہ ہو کسی انسانی جان کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ وفاقی حکومت مالی امداد میں پیچھے نہیں ہٹے گی اور امدادی پیکج میں مزید اضافہ کریں گے، انہوں نے کہا کہ انسانی فطرت ہے کہ بچے کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بچہ ماں کے پاس آتا اور ماں بچے کے پاس آتی ہے۔ تمام ادارے اس ایوان کی کوکھ سے نکلے ہیں، یہ ایوان ماں کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1973ء کا آئین ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت مرتب کیا گیا، یہ آئین ملک کی وحدت کی بہت بڑی نشانی ہے، بدترین وقتوں میں اس آئین نے دنیا کے سامنے پاکستان کو مضبوط اور متحد طور پر پیش کیا اور صدیوں تک یہ آئین ملک کو مضبوط کرتا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ حاکمیت اللہ کی ہے اور وہی مالک اور خالق ہے اور جو اختیار اللہ نے ملک کے 22 کروڑ عوام کے اس نمائندہ ایوان کو دیا ہے وہ مقدس امانت کے طور پر یہ ایوان استعمال کرتا ہے۔ آئین کے تحت ہی مقننہ اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کا آئین میں کردار متعین ہے، آئین ہی ہر ادارے کو بتاتا ہے کہ اس نے اپنے دائرہ میں رہ کر ملک کی خدمت کرنی ہے مگر اس ملک میں بدقسمتی سے مارشل لاء آئے اور دہائیوں تک قائم رہے، اس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا، جمہوریت کا پودا توانا نہ ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ قرب و جوار پر اگر نظر دوڑائیں تو جو ملک ہم سے بہت پیچھے تھے وہ ہم سے کہیں آگے نکل گئے۔اغیار نے آئی ایم ایف کو اور غربت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا مگر ہم ابھی تک مسائل کا شکار ہیں، نہ جانے کب ہماری قرضوں سے جان چھوٹے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ 2018ء کے الیکشن میں بدترین جھرلو پھیرا گیا، رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس بند ہوگیا، ایک سابق چیف جسٹس کے حکم پر گنتی رکوائی گئی۔ 2018ء کی حکومت تاریخ کی بدترین دھاندلی کی پیداوار تھی۔ ساڑھے تین سالوں میں 20 ہزار ارب سے زائد کے قرضے لئے گئے۔ 5.8 فیصد جی ڈی پی 2019ء میں ایک فیصد سے بھی کم ہوگئی، لوگ بے گھر ہوگئے۔پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکل رہا تھا مگر اس وقت کی اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ سیاست کی بجائے ریاست کو بچانا ہے، تمام قائدین نے مل کر فیصلہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، بیروزگاری اور مہنگائی عروج پر ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہم چور دروازے سے آئے ؟ ہم نے وزیراعظم ہائوس پر چڑھائی نہیں کی، ہم نے ووٹ کی طاقت سے تاریخ کا بدترین چیلنج قبول کیا۔انہوں نے تمام اتحادی جماعتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میرے قائد میاں نواز شریف سمیت سب نے مل کر مجھے یہ ذمہ داری سونپی، یہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کی مالا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے جنرل مشرف نے بھی وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی اور بھی کئی مرتبہ مجھے وزیراعظم بنانے کی پیشکشیں ہوئیں، میں اس وقت ان میں سے کسی کا نام نہیں لوں گا جب تک وہ خود اس کا ذکر نہیں کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر مجھے وزیراعظم بننا ہوتا تو ایک نہیں کئی مواقع تھے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو جب اقامہ کی سزا دی گئی تو اس وقت بھی مجھے میری پارٹی نے وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی مگر میں نے فیصلہ کیا کہ میں پارٹی اور عوام کے مینڈیٹ کے مطابق پنجاب میں ترقیاتی کام مکمل کروں گا۔انہوں نے کہا کہ غریب اور دکھی قوم کے حالات دیکھ کر رات کو نیند بھی نہیں آتی ہے، بنگلہ دیش سمیت خطہ کے ممالک ہم سے آگے نکل گئے۔ 75 سال گزرنے کے باوجود ہم نے ابھی تک اپنا راستہ متعین نہیں کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جب ایک سابق چیف جسٹس دن رات سو موٹو لیتا تھا، 55 کمپنیوں کو ایک ساتھ نوٹس جاری ہوتا تھا، مجھ سمیت وزراء اعلیٰ عدالتوں میں جاتے رہے، عدالت اگر بلائے تو احترام سے جانا چاہیے تاہم اگر فیصلہ کرنا ہے تو حق اور انصاف کی بنیاد پر ہونا چاہیے، یہ ممکن نہیں کہ آپ دوہرا معیار اختیار کریں۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں نے سابق حکومت سے قوم کی جان چھڑائی ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، جس کا دفتر جرمنی میں ہے، نے قرار دیا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں پاکستان میں کرپشن کا انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہا۔ دوست ممالک کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا گیا، ترکی ، سعودی عرب اور چین کے ساتھ جو برتائو کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے اس کے باوجود یہ امپورٹڈ حکومت کی بات کرتے ہیں، قوم کو یاد ہے کہ جب یہ ٹرمپ سے مل کر واپس آئے تو کہا کہ وہ ورلڈ کپ لے کر آئے ہیں، یہ بات میں نے یا بلاول بھٹو نے نہیں کی بلکہ عمران خان نے کی تھی۔ سب سے تعلقات خراب کرکے یہ دوسروں کو کٹھ پتلی قرار دیتا ہے، یہ خود ایک کٹھ پتلی تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ روس سے سستے تیل کی آفر کے لئے لیٹر کی بات کی گئی جس کی روس کی حکومت نے تردید کی اور واضح کیا کہ ہم نے ایسا کوئی خط جاری نہیں کیا۔ حال ہی میں گندم کے حوالے سے ایک اجلاس میں سیکرٹری خارجہ بھی موجود تھے، انہوں نے کہا کہ روس کی جانب سے گندم کی فراہمی کی پیشکش ہے، ہمارے پاس تین ملین ٹن گندم کی کمی تھی، ہم نے کہا کہ اگر سستی اور اعلیٰ معیار کی گندم مل رہی ہے تو بات آگے بڑھائی جائے، میں نے کابینہ میں بھی یہ بات کہی کہ ہم نے دیگر ممالک کے نہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کو دیکھنا ہے۔ اس کے برعکس ان کا رویہ یہ تھا کہ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر حکم دیتا اور کہتا کہ اگر میں ہوں تو سب کچھ ہے اور میں نہیں ہوں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ وہ رویہ تھا جس نے پاکستان کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کیا۔