اتوار کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کے ذریعے ملک کی قسمت کا فیصلہ ہوگا،وزیراعظم عمران خان

اسلام آباد:وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ منتخب جمہوری حکومت کو گرانے اور ملک و قوم کی خود مختاری کے خلاف سازش کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دوں گا،قوم سازش کرنے اور ان کا ساتھ دینے والوں کو نہ تو فراموش کرے گی اور نہ ہی انہیں معاف کرے گی، ضمیر فروش اور ملک کا سودا کرنے والے عصر حاضر کے میر جعفر اور میر صادق ہیں، ملک کے اندر اور باہر موجود کچھ لوگ اور لندن میں بیٹھا مفرور جمہوری حکومت کے خلاف سازش کا حصہ ہیں، ایک ملک کی جانب سے دھمکی آمیز پیغام 22 کروڑ عوام کے خلاف ہے، اتوار کو تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا نتیجہ جو بھی نکلے آخری گیند تک مقابلہ کروں گا، استعفیٰ نہیں دوں گا، قومی سلامتی اور قوم کی خودداری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، خود داری ایک آزاد قوم کی نشانی ہوتی ہے، خود کسی کے سامنے جھکوں گا نہ قوم کو جھکنے دوں گا، قوم کو غلامی میں نہیں دھکیلوں گا۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار ٹیلی ویژن پر قوم سے اپنے خطاب میں کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ پاکستان کے عوام سے ملک کے مستقبل کے بارے میں اہم بات کرنے کے لئے خطاب کر رہے ہیں، اس لئے انہوں نے ریکارڈنگ کی بجائے براہ راست خطاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے، ہمارے سامنے دو راستے ہیں، دو میں سے ہم نے ایک راستے کا انتخاب کرنا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری طرح کا آدمی سیاست میں کیوں آیا، سیاستدانوں کی زندگیاں دیکھیں تو پہلے انہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھا، بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں کچھ حاصل کیا ہوا،قائداعظم محمد علی جناح بہت بڑے سیاستدان تھے، پورے ہندوستان میں وہ سب سے بڑے وکیل سمجھے جاتے تھے، سیاست میں آنے سے پہلے ان کا ایک مقام تھا لیکن زیادہ تر لوگوں کو دیکھیں تو سیاست میں آنے سے پہلے کوئی ان کا نام بھی نہیں جانتا تھا،میں وہ خوش قسمت انسان ہوں اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے سیاست میں آنے سے پہلے ہی بہت کچھ دے دیا تھا، ضرورت کے مطابق پیسہ میرے پاس تھا، آج بھی کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم آزاد پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں،میرے والدین انگریز کے دور میں غلامی کے دور میں پیدا ہوئے، انہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور ہمیشہ اس بات کا احساس دلایا کہ آپ بڑے خوش قسمت ہیں کہ آپ ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہیں کیونکہ غلامی میں ایک سطح سے اوپر آپ جا ہی نہیں سکتے کیونکہ اس کے اوپر پھر آپ کے حکمران بیٹھے ہوتے ہیں،خود دار لوگ انگریز کی غلامی کو بہت برا سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں سیاست کا طالب علم رہا، پوری دنیا کی سیاست پڑھی، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی برصغیر میں بہت اہمیت تھی، سیاست میں قائداعظم جیسا عظیم لیڈر میرا آئیڈیل ہے، وہ بیماری کی حالت میں بھی پاکستان کا مقدمہ لڑتے رہے، علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ قیام پاکستان کا مقصد اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا عظیم مقصد تھا اور قرارداد پاکستان میں اس کا ذکر ہے، اسلام کا سنہری دور مدینہ کی ریاست تھی۔انہوں نے کہا کہ سیاست میں آنے کا مقصد ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے، جب میں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اس وقت سے انصاف، انسانیت اور خودداری میرے سیاسی منشور کا اہم جزو ہیں، انصاف کا مطلب یہ ہے کہ طاقتور اور کمزور کیلئے ایک قانون ہو۔انہوں نے کہا کہ مسلمان قوم غلام نہیں بن سکتی، لا الہ الا اللہ انسان کو دنیاوی غلامیوں سے آزاد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیسے اور خوف کی غلامی شرک ہے، مجھے لوگوں نے کہا کہ آپ کو سیاست میں آنے کی ضرورت کیا تھی،اس کا مطلب ہے کہ صرف ضرورت ہی ہو تو انسان سیاست میں آئے، سیاست میں ضرورت کی بجائے نظریے کو مقدم رکھنا چاہئے، مولانا رومی کا قول ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ”آپ کو پر دیئے ہیں تو کیوں چیونٹیوں کی طرح زمین پر رینگ رہے ہیں”، اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، اﷲ نے ہمیں پّر دیئے لیکن ہم پیسے اور خوف کے پجاری بن گئے ہیں، پیسے کی پوجا کرنا سب سے بڑا شرک ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں، کبھی پاکستان تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے اور دنیا میں اس کی مثالیں دی جاتی تھیں، کوریا، ملائیشیا اور مشرق وسطیٰ سے لوگ یہاں سیکھنے آتے تھے لیکن پھر ہم نے ملک میں تنزلی بھی دیکھی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس کے ساتھ ساتھ اسلامو فوبیا کا مسئلہ بھی تھا،اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو عظیم صلاحیتیں دی ہیں لیکن کچھ شرائط بھی رکھی ہیں، اقبال کے شاہین کا تصور انسان کی خود داری کو اجاگر کرتا ہے، وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو تندی باد مخالف کا سامنا کرتی ہیں، ہم نے سہل راستہ اپنا کر اپنی مشکلات میں اضافہ کیا،شاہین تب اوپر جاتا ہے جب وہ مقابلہ کرتا ہے، بچوں کو سیرت النبیۖ پڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ دنیا کی تاریخ میں وہ سب سے عظیم انسان ہیں اور ان کا راستہ انسانیت کی عظمت کا راستہ ہے لیکن ہم دوسرا راستہ اپنا لیتے ہیں کہ فلاں ملک ناراض ہو گیا تو ہم تباہ ہو جائیں گے اور اسی وجہ سے ہم چیونٹیوں کی طرح رینگ رہے ہیں۔