بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ ایک نیا معمول بن گیا ہے،پاکستانی مندوب

اقوام متحدہ:پاکستان نے بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کو اس کا اٹوٹ انگ قرار دینے کا دعوی مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ نے جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیا ہے اور یہ عالمی نقشے میں متنازع علاقہ کے طور پر موجود ہے۔اقوام متحدہ میں اقوام متحدہ میں پاکستان مشن میں قونصلر صائمہ سلیم نے اقوام متحدہ کے صنفی مساوات کے فروغ اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے قائم عالمی بین الحکومتی ادارہ کمیشن آن سٹیٹس آ ف ویمن کے 66ویں سیشن میں گزشتہ روز بھارتی نمائندہ کے اس دعوی کو مسترد کر دیا کہ کشمیربھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔پاکستانی ڈیلیگیٹ صائمہ سلیم نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت کے حتمی فیصلے کا اختیار کشمیری عوام نے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے کرنا ہے جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں درج ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن میں قونصلر صائمہ سلیم نے بھارتی الزامات پر جواب دینے کا اپنا حق استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت ہی ہے جہاں اقلیتوں کے خلاف دہشت گردی کا راج جاری ہے۔انہوں نے کشمیری شہریوں اور بھارت میں اقلیتوں پر بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پر حکمرانی کرنے والے ہندوتوا نظریہ کے پیروکاروں نےبھارتی فاشزم کے حقیقی چہرے سے سیکولرازم کا نقاب اتار دیا ہے، نام نہاد “سب سے بڑی جمہوریت” ہندوتوا فلسفے کی نفرت، تشدد، دہشت گردی اور اسلاموفوبیاکے گڑھ میں تبدیل ہو چکی ہے۔پاکستانی ڈیلیگیٹ نے کہا کہ بھارت کی فاشسٹ آر ایس ایس ۔بی جے پی حکومت کے 5اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات سے بھارت کی 9لاکھ قابض افواج نے جموں و کشمیر میں تاریخ کا سب سے زیادہ فوجی دستوں کے استعمال سے قبضہ کر رکھا ہے،جنہوں نے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل جموں و کشمیر میں 80 لاکھ کشمیری مردوں، خواتین اور بچوں پر مظالم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں 20 کروڑ مسلمان آباد ہیں اس کے باوجود گائو رکھشکوں اور آر ایس ایس کے ‘براؤن شرٹ’ غنڈوں کی قیادت میں نہتے مسلمانوں کو تشدد کرکے قتل کیا ہے اور عیسائیوں، سکھوں اور دلتوں سمیت بھارت کی دیگر اقلیتوں کے ارکان کو ہندو بنیاد پرستوں کے ہاتھوں ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے ۔بھارت میں گجرات اور دہلی کے قتل عام کے مجرموں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے، جہاں بابری مسجد سمیت مساجد کی بے حرمتی اور اس کی جگہ مندر تعمیر کرنا ریاست کا ایجنڈا ہے، جہاں گرجا گھروں اور گوردواروں کو نذر آتش کیا جاتا ہے، جہاں شہریت ترمیمی قانون کا مقصد بھارت کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے، جہاں مسلمان خواتین کے لیے حجاب پر پابندی ہے، جہاں مسلمان خواتین اور لڑکیاں تعلیم کے حق سے محروم ہیں،جہاں “کورونا جہاد”کے نام پر مسلم مخالف ٹرول انٹرنیٹ پر راج کرتے ہیں اور حکمران آر ایس ایس اور بی جے پی کے رہنما مسلمانوں کو دیمک اور گرین وائرس کہتے ہیں اور جہاں مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ ایک نیا معمول بن گیا ہے۔پاکستانی ڈیلیگیٹ صائمہ سلیم نے کہا کہ ہم کشمیری خواتین کی طرف سے دنیا اور اس کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارت پر زور دیں کہ وہ پاکستان ،کشمیریوں اور بھارت میں مقیم اقلیتوں کے خلاف اپنی ریاستی دہشت گردی کو ختم کرے۔ انہوں نے دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کے غیرقانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بھارتی جرائم خاص طور پر لاکھوں کشمیری خواتین کے خلاف جرائم پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرائے