عالمی برادری نئی افغان حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھے، پاکستانی سفیر

کابل:افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے کہا ہے افغانستان پر طالبان کی حکومت کے بعد امن و امان کی صورتحال میں نسبتاًبہتری آئی ہےامن، استحکام اور سلامتی ترجیحات ہیں اور طالبان کی قیادت میں اس حوالہ سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔عالمی برادری طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ، امریکی میگزین “فارن پالیسی “کوایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اورحکومت میں تمام مذہبی اور لسانی گروپوں کی شمولیت کی حمایت کرتا ہے اورایسے کسی ایشوز کوافغانستان میں طالبان کی حکومت کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنے یا مالیاتی اثاثوں کو غیرمنجمد کرنے کے لیے سودے بازی کے طور پر استعمال نہیں کیا جارہا ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے عوام کی اکثریت طالبان کی حکومت کی حمایت کرتی ہے،پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں جن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔سفیر منصور احمد خان نےایک سوال کے جواب میں کہا کہ 15 اگست کو افغانستان پر طالبان کی حکومت کے بعد امن و امان کی صورتحال میں بڑی بہتری آئی ہے،داعش کے کچھ حملوں کے سوا سلامتی کے حوالے سے کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا ہےمجموعی طور پرافغانستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حوالہ سے پاکستان کا کوئی پسندیدہ نہیں ہے چاہے وہاں کسی کی بھی حکومت ہو، ہم نے ہمیشہ اس بات پر زوردیا ہے کہ افغاستان کی حکومت مستحکم حکومت ہونی چاہیے اور ایسی حکومت ہونی چاہیے جو افغان عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق ہو جس کا افغان سرزمین پر مکمل کنٹرول ہو تاکہ کوئی دہشت گرد یا عسکریت پسند گروپ اپنے ٹھکانے یا پناہ گاہیں نہ بنا سکے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد کوئی متفقہ سیاسی انتظام نہ ہونے کے باعث ایک قسم کا خلا تھا ،امریکا نے افغانستان کے زر مبادلہ کے ذخائر بھی منجمد کر دیئے جس کے باعث افغانستان کو بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں مشکلات درپیش ہیں جبکہ افغانستان کی معیشت اور بینکاری لین دین پر دبائو ہے اس وجہ سے اشیاکی فراہمی میں قلت کا سامنا ہے، موسم سرما کی آمد آمد ہے یہ صورتحال شدت اختیار کر سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی ممالک اورتنظیموں جن میں اقوام متحدہ، اس کا ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام اور عالمی ادارہ صحت نے افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امدادی سامان پہنچا دیا ہے جس سے صورتحال میں بہتری اور استحکام آیا ہے اور اگر امدادی اشیا کی فراہمی اسی طرح جاری رہی اور افغانستان کے ساتھ مستحکم بین روابط قائم رہے تو افغانستان کے لیے ان چیلنجز پر قابو پانا بہت آسان ہو گا ۔سفیر منصور احمد خان نے کہا کہ طالبان افغان عوام کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور بڑی تعداد میں سفارتی مشنز کابل میں ہیں اور ان کی حکومتیں مدد کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں جس کا انحصار طالبان کی بین الاقوامی برادری کے ساتھ بات چیت اوراس میں پیش رفت سے ہوگا ہے اس سلسلہ میں وسیع البنیاد اور جامع رابطہ ،انسانی حقوق ، خواتین کے حقوق، خواتین کی تعلیم اور دیگر متعلقہ ایشوز اہمیت کے حامل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت اپنے شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہےاور اس لیے اب سرحد پر مہاجرین اور لوگوں کی نقل و حرکت کے کنٹرول میں کافی بہتری ٓئی ہے،افغانستان چھوڑنےوالوں کی بڑی تعداد دیکھنے میں نہیں آئی اور ایسا اسی صورت میں ہوتا اگر وہاں اشیاء کی شدید قلت ہوتی ۔