ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم کی صف بندی؟ امریکی ٹی وی پرکالعدم تنظیم کے سربراہ کا انٹرویو،سوالات اٹھنے لگے

اسلام آباد:امریکی ٹی وی چینل پر دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم ”ٹی ٹی پی” کے رہنما نور ولی محسود کا انٹرویو نشر ہونا نہ صرف موضوع بحث بن گیا ہے اور اس نے ماحول کو گرما دیا ہے بلکہ اس انٹرویو کے نشر ہونے کے وقت کے انتخاب کے حوالہ سے کئی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد یہ انٹرویو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے نشر کیا گیا ہے؟۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما نور ولی محسود کا سی این این کو انٹرویو امریکہ کی طرف سے ٹی ٹی پی، جسے پاکستان پہلے ہی بے اثر کر چکا تھا جبکہ امریکہ اور دوسرے ممالک افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے، کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے باوجود اسے قانونی جواز فراہم کرنے اور اس تنظیم کو افغان طالبان کے برابر لانے کی کوشش ہے۔تحریک طالبان پاکستان، جس نے پاکستان میں نہتے شہریوں اور مسلح افواج کے خلاف بہت سے گھنائونے حملوں میں بچوں اور خواتین سمیت معصوم پاکستانیوں کو نشانہ بنایا، اسلامائزیشن کی آڑ میں اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو تحفظ دینے کیلئے اپنا موقف بدلتی رہی ہے، کمانڈ الیون۔جو کہ ایک اوپن سورس انٹیلی جنس تھنک ٹینک اور انسداد دہشت گردی، شورش اور انتہا پسندی کے حوالہ سے تخصص کا حامل ہے، کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی ایک ناکارہ دہشت گرد گروپ ہے جو انڈین سکول آف پبلک پالیسی (آئی ایس پی پی) کے تحت دوبارہ سرگرم ہونے کیلئے کوشاں ہے کیونکہ افغانستان میں ان کی طاقت ختم ہو چکی ہے اور ان کی حیثیت غیر متعلقہ ہو چکی ہے۔تحریک طالبان پاکستان کے رہنما کے انٹرویو نے آرمی پبلک سکول پشاور پر کئے گئے بہیمانہ حملہ کی یاد تازہ کر دی ہے جس میں سکول کے 134 بچوں سمیت 150 افراد شہید ہوئے تھے۔ اسلام آباد میں مقیم صحافی ثناء جمال نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ”سی این این” نے اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں کو بھی اپنے ٹی وی پر وقت دیا ہے؟ یا افغانستان بیسڈ ٹی ٹی پی کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد رہنما، جو ہمارے بچوں کے قتل عام سمیت پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار ہے، کا ہی انتخاب کیا ہے۔ٹویٹر پر صارفین نے ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی طرف سے ٹی ٹی پی کو جائز، اصلاح شدہ اور انسانی حقوق کا خیال رکھنے والی تنظیم کے طور پر اجاگر کرنے کی کوشش کے خطہ کیلئے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کی اینالیٹیکل اور مانیٹرنگ ٹیم کی 27ویں رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی بہت سے عسکری گروہوں کو اپنی چھتری تلے متحد کرنے کے بعد طاقت پکڑ چکی ہے جس کے نتیجہ میں خطہ میں دہشت گرد حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس میں 100 سے زائد سرحد پار حملے بھی شامل ہیں جو پاکستان میں کئے گئے۔ٹی ٹی پی 2007ء میں پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ شمال مغربی سرحدی علاقہ میں کئی مقامی عسکریت پسندوں کی تنظیم کے طور پر سامنے آئی تھی اور اس نے ملک بھر میں اسلامی قوانین کو ان کی سخت شکل میں نافذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ تنظیم پاکستان کے نہتے عوام اور سکیورٹی فورسز پر 2014ء تک بڑے پیمانے پر درجنوں خودکش حملوں اور دہشت گردی میں ملوث رہی جب پاکستانی افواج نے شمالی وزیرستان میں اس کے ہیڈکوارٹرز کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی جس میں بہت سے دہشت گرد ہلاک ہو گئے اور بچے کھچے مشرقی افغانستان کی طرف فرار ہو گئے۔پاکستان سے ختم کئے جانے کے بعد ٹی ٹی پی کے رہنمائوں نے افغانستان میں پناہ لے لی اور آرمی پبلک سکول پشاور سمیت پاکستان میں دہشت گرد حملے جاری رکھے تاہم حالیہ مہینوں میں ٹی ٹی پی کے دوبارہ سرگرم ہونے کے بعد شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز اور قبائلی عمائدین پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔انسداد دہشت گردی کے ادارہ نے کئی حملوں کو ناکام بناتے ہوئے بہت سے دہشت گردوں کو گرفتار کیا، بہت سے ٹی ٹی پی کے ارکان سے کی گئی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ انہیں بھارت اور افغانستان کے خفیہ اداروں کی طرف سے مالی مدد مل رہی ہے۔ایک بھارتی مصنف اوی ناش پلیوال نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کی سرحد سے ملحقہ افغانستان میں بھارتی قونصلیٹس بلوچ عسکریت پسند گروپوں اور ٹی ٹی پی کو بھرپور مدد فراہم کر رہے ہیں اور دبئی کے ذریعے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” انہیں فنڈز فراہم کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ”ٹی ٹی پی” اور ”آئی ایس کے پی” 6 ہزار سے زائد دہشت گرد جن میں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیئے گئے کمانڈر نور ولی اور خراسانی شامل ہیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں میں موجود ہیں۔اسی اثناء میں ٹی ٹی پی اپنے بیانیہ کو پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بیانیہ کے ساتھ جوڑ کر اپنے آپ کو جائز حیثیت دینے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ اب اس کے مطالبات میں پشتونوں اور بلوچوں کے حقوق کی بات کی جا رہی ہے جس کا مقصد اپنے دہشت گرد حملوں پر پردہ ڈالنا ہے،بدقسمتی سے بہت سے معصوم پشتون ان علاقوں میں ٹی ٹی پی کے ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں جہاں یہ موجود تھے۔ ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم کی صف بندی اس انداز میں ہو رہی ہے کہ سابق فاٹا کے علاقوں میں ریاست کی رٹ کے خلاف دونوں نے اشتراک کیا ہے اور اپنے لئے ہمدردیوں کے حصول کے سلسلہ میں مخاصمانہ سرگرمیوں کے حامل ریاست اور فوج مخالف بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔سابق کور کمانڈر لاہور اور اردن میں پاکستان کے سفیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفاعت شاہ کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی پر امریکہ نے پابندی لگائی تھی جبکہ دوسری جانب اس کے دہشت گرد رہنما امریکی ٹی وی سی این این کو انٹرویو دے رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان انٹیلی جنس، را اور سی آئی اے کا تعاون انہیں حاصل ہے وگرنہ سی این این کی ٹیم کی اس دہشت گرد تک رسائی نہیں ہو سکتی تھی۔