افغان پناہ گزینوں کی آڑ میں پاکستان کے دشمن داخل ہونے کا خطرہ

اسلام آباد : وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے تاجکستان میں ایس سی اووزرائیخارجہ کونسل اجلاس پر بیان میں کہا ہے کہ ایس سی اواجلاس میں شرکت کیلئے تاجکستان میں موجود ہوں، خطے کے اہم ممالک سے افغان صورت حال پر پاکستان کا نکتہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں اور اہم ممالک کی آراسے مستفید ہونا چاہتا ہوں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ تاجک وزیر خارجہ سے افغان صورتحال پرتفصیلی گفتگو ہوئی، وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ خطے کے اہم ممالک ہیں اورافغان صورتحال پرنظر رکھے ہوئے ہیں، چاہتے ہیں اہم ممالک سے مشاورت کے بعدمتفقہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھارہا ہے، افغانستان کی صورتحال بہتر ہونے کا سب کو فائدہ ہوگا اور اگر خوانخواستہ افغانستان کی صورتحال بگڑی تو سب متاثرہوں گے۔شاہ محمود قریشی نے مزید کہا سنہری موقع ہے کہ مشاورتی عمل کو آگے بڑھایا جائے، افغانستان میں امن بگڑا تو پڑوسی زیادہ متاثر ہوں گے، پاکستان کئی دہائیوں سے 30لاکھ افغان پناہ گزینوں کی خدمت کررہا ہے اور محدود وسائل کے باوجود افغان پناہ گزینوں کی خدمت جاری رکھی تاہم حالات خراب ہونے پرمزید افغان پناہ گزینوں کورکھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔وزیر خارجہ نے خبردار کیا کہ ہم نے دہشتگردی کیخلاف 70ہزار جانوں کیساتھ معاشی قیمت ادا کی، افغان پناہ گزینوں کی آڑ میں ایسے عناصر آسکتے ہیں جو نقصان پہنچائیں۔افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں قیام پذیر افغان پناہ گزینوں میں اکثریت معصوم لوگوں کی ہے، یہ معصوم افغان پناہ گزین اپنے ملک واپس لوٹنا چاہتے ہیں، پناہ گزینوں کی آڑ میں پاکستان کے دشمن داخل ہو سکتے ہیں، ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی،محتاط رہنا ہمارا فرض ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ معصوم لوگوں کی جانیں بچانے کا ہمیں حق ہے، پاکستان چاہتا ہے افغانستان میں دیرپا امن و استحکام ہو، ہم پر کب تک انگلیاں اٹھائی جاتی رہیں گی، ماضی کی غلطیوں کو مت دہرائیں،اور مل بیٹھ کرراستہ نکالیں۔افغانستان میں امن کیلئے وزیر خارجہ نے افغانستان کی اہم شخصیات کو بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا افغان قائدین بیٹھیں اور بتائیں ہم کیسے ان کی مدد کرسکتے ہیں۔بھارت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے افغانستان میں اسپائیلر کا کردار ادا کیا، بھارت خطے کے امن میں خلل ڈال رہا ہے، عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کو منفی رویے سے منع کرے۔