وفاقی بجٹ میں قبائلی اضلاع کی ترقی کیلئے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں، شوکت ترین

اسلام آباد:آئندہ مالی سال 2021-22ءکا 8487 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنروں کی پنشن میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 900 ارب روپے ہے، کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ رکھے جانے کی تجویز ہے،وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ گزشتہ سال کے 2704 ارب روپے سے بڑھ کر 3411 ارب روپے رہے گا، گراس محصولات کا حجم 7909 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جو گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ 6395 ارب روپے کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہے، نان ٹیکس ریونیو میں 22 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، مجموعی سبسڈیز کا تخمینہ 682 ارب روپے لگایا گیا ہے، احساس پروگرام کے لئے 260 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،شرح نمو کا ہدف 4.8 فیصد رکھا گیا ہے، مقامی طور پر بنائی جانے والی 850 سی سی تک کاروں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں چھوٹ اور سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کی جارہی ہے جبکہ اس پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا خاتمہ کرنے کی تجویز ہے، 1.1 ارب ڈالر کی ویکسین درآمد کئے جانے اور جون 2022ءتک دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگانے کا ہدف ہے۔ قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2021-22ءکا بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تو انہیں شکستہ معیشت ورثہ میں ملی، ایک طرف ہمیں قرضوں کی وجہ سے دیوالیہ پن کی صورتحال کا سامنا تھا اور دوسری طرف درآمد کی طلب کو پورا کرنے کے لئے رقوم میسر نہیں تھیں۔انہوں نے بتایا کہ اہم فصلوں کی پیداوار میں تاریخی اضافہ سے کسانوں کو 3100 ارب روپے کی آمدنی ہوئی جبکہ گزشتہ سال یہ آمدن 2300 ارب روپے تھی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ احساس پروگرام کے تحت 40 فیصد سے زائد لوگوں کو نقد امداد کی گئی، کوویڈ 19 کے باوجود گزشتہ ایک سال میں فی کس آمدنی میں اوسطاً 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں ٹیکس وصولی 4ہزار ارب روپے کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے۔ ریفنڈ کی ادائیگی گزشتہ سال کی نسبت 75 فیصد زائد ہے۔ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں میں تین لاکھ بارہ ہزار کا اضافہ کیا ہے جنہوں نے 51 ارب روپے کے ٹیکس ریٹرن ادا کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال برآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر ہیں جو 3 ماہ سے زیادہ کی درآمدی بل کے لئے کافی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کافی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں خام تیل کی قیمتوں میں دنیا میں 180 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ملکی سطح پر ان کی قیمتیں صرف 45 فیصد بڑھیں۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری قرضے میں اب کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔اگلے تین سالوں میں ٹیکس کے نظام میں شفافیت اور بہتری لانے کی وجہ سے سرکاری قرضے میں مزید کمی آئے گی اور اسے پائیدار سطح پر لانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اعلان کرتے ہوئے انہیں خوشی ہے کہ اب معیشت کے استحکام کا مرحلہ کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے۔ بجٹ 2021-22ءمیں جامع اور پائیدار نمو کا حصول ہمارا محور ہوگا۔ اگلے سال کے لئے ہم نے معاشی ترقی کا ہدف 4.8 فیصد رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت کم آمدن ہاؤسنگ کی مد میں20 لاکھ روپے تک سستے قرضے دیئے جائیں گے۔ ہر گھرانے کو صحت کارڈ دیا جائے گا۔ ہر گھرانے کے ایک فرد کو مفت تکنیکی تربیت دی جائے گی۔ ہر کاشتکار گھرانے کو کاشت کے لئے ہر فصل کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے کا سود سے پاک قرضہ دیں گے اور ٹریکٹر اور مشینی آلات کے لئے دو لاکھ روپے قرض دیا جائے گا۔ ہر شہری گھرانے کو کاروبار کے لئے پانچ لاکھ روپے تک سود سے پاک قرض دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی کا 65 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ اگلے دو سے تین سالوں میں کم سے کم 6 سے 7 فیصد نمو یقینی بنانا چاہتے ہیں جس سے نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور وہ خوشحال زندگی گزار سکیں گے۔اس مقصد کے لئے صنعت ،برآمدات ، ہاﺅسنگ و تعمیرات، کمزور طبقات کے لئے سماجی تحفظ کے پروگرام اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ زراعت کے شعبے میں جامع منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت بیج، کھاد، زرعی قرضے، ٹریکٹر اور مشینری ، کولڈ ویئر ہاﺅسز کی تعمیر اور فوڈ پراسیسنگ انڈسٹری میں مدد کی جائے گی۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں احساس پروگرام کے لئے 260 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں۔ صنعت اور برآمدات کے لئے خصوصی کوششیں کی جائیں گی۔ کم آمدن گھرانوں کو اپنا گھر خریدنے یا بنانے میں مدد کے لئے تین لاکھ روپے سبسڈی دی جارہی ہے اس مقصد کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 33 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بنکوں سے 100 ارب روپے کی فراہمی کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے 70 ارب روپے کی فراہمی کی منظوری دے دی گئی ہے اور اس کی ادائیگی شروع ہو گئی ہے۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ مختلف سروسز پر منافع کا مارجن کم ہے اور عائد ودہولڈنگ شرح بہت زیادہ ہے جس سے ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تجویز ہے کہ آئل فیلڈ سروسز، ویئر ہاﺅسنگ سروسز، کولیکٹرل مینجمنٹ سروسز، سیکیورٹی سروسز اور ٹریول اینڈ ٹور سروسز پر ودہولڈنگ ٹیکس شرح کو آٹھ فیصد سے کم کرکے تین فیصد تک کردیا جائے۔شوکت ترین نے بتایا کہ موبائل سروسز پر موجودہ ودہولڈنگ ٹیکس شرح 12.5 فیصد ہے۔

عام شہری پر بوجھ کو کم کرنے کے لئے تجویز ہے کہ اگلے مالی سال کے لئے اس شرح کو کم کرکے 10 فیصد کردیا جائے۔ تجویز ہے کہ اس کو بتدریج 8 فیصد تک کم کردیا جائے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا کہ معاشی حالات میں بہتری آئی ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید بھی متاثر ہوئی ہے اس لئے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لئے اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے جس کے مطابق یکم جولائی 2021ءسے تمام وفاقی سرکاری ملازمین کو دس فیصد ایڈہاک ریلیف الاﺅنس دیا جائے گا۔یکم جولائی سے پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ اردلی الاﺅنس 14 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 17500 کردیا جائے گا۔ گرید ایک سے پانچ تک کے ملازمین کے انٹیگریٹڈ الاﺅنس 450 روپے سے بڑھا کر 900 روپے کئے جانے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا کہ کم آمدن افراد پر مہنگائی کے دباﺅ کو کم کرنے کے لئے کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ کی جارہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ کمزور طبقات کی امداد کے لئے احساس پروگرام کے تحت ایک درجن سے زائد پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے جس میں کیش ٹرانسفر، کامیاب جوان، بلاسود قرضے، نیوٹریشن تحفظ، چھوٹے کاروبار کے آغاز کے لئے مالی امداد، یتیموں، بے سہارا بچوں، مجبوری کے تحت ہجرت کرنے والوں، مزدور بچوں ، جبری مشقت کا شکار افراد اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لئے مالی امداد، غرباءکے لئے کھانوں کی فراہمی کے لئے لنگر، راشن کی تقسیم کے لئے فوڈ کارڈ، کھانے اور دیگر اشیاءکی فروخت کے لئے نئے طرز کے ٹھیلے شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ توانائی کے شعبہ میں اصلاحات کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔گردشی قرضے کو کم اور پھر ختم کرنے کے لئے منصوبہ بندی ، پرائیویٹ پاور پروڈیوسر کے تعاون سے گردشی قرضے کی تشکیل نو، بجلی کی زیادہ کھپت والی صنعتوں کے لئے مراعات، لائن لاسز کم کرنے کے لئے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے عمل میں ضروری سرمایہ کاری، بجلی کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے الیکٹرک وہیکل پالیسی کا اعلان اور مجموعی لاگت کم کرنے کے لئے ہائیڈرو اور قابل تجدید توانائی کے ذریعے سستی بجلی کی پیداوار کا حصول شامل ہے۔اگلے دو سالوں میں ہم اس سیکٹر کے تمام مسائل کے حل کے لئے مزید ڈھانچہ جاتی اصلاحات کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ مالیات اور بنکاری، بجٹ اور قرضوں کو قابل برداشت سطح تک لانے ، قیمتوں کے استحکام، انڈسٹری اور برآمدات، پبلک سیکٹر انٹرپرائز اور نجکاری پالیسی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ملک کی اندرونی تجارت کے شعبوں میں قلیل المدتی ، وسط مدتی اور طویل المدتی منصوبوں کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں۔ اس مقصد کے لئے اعلیٰ سطح کی اکنامک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی گئی ہے۔ اس حوالے سے آئندہ چند ہفتوں میں منصوبہ جات پیش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کو 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے کر رہے ہیں جو تقریباً 40 فیصد اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لئے خوراک اور پانی کی دستیابی ، توانائی کا تحفظ، روڈ انفراسٹرکچر میں بہتری، چین پاکستان معاشی راہداری پر عملدرآمد میں پیشرفت، خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر اور انہیں فعال بنانے، پائیدار ترقیاتی اہداف، موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات، ٹیکنالوجی کی مدد سے علوم میں پیشرفت اور علاقوں کے مابین پائے جانے والے فرق کا تدارک، اگلے سال ہماری ترقیاتی ترجیحات ہیں اس سے معاشی ترقی کے فروغ کے ساتھ ساتھ بیروزگاری اور غربت میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ زرعی شعبے میں ٹڈی دل، ایمرجنسی اور فوڈ سیکیورٹی پراجیکٹ کے لئے ایک ارب روپے، چاول، گندم، کپاس ،گنے اور دالوں کی پیداوار میں اضافے کے لئے دو ارب روپے ، تجارتی بنیادوں پر زیتون کی کاشت بڑھانے کے لئے ایک ارب روپے، آبی گزرگاہوں کی مرمت اور بہتری کے لئے تین ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ آبی تحفظ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لئے 91 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لئے 57 ارب روپے، دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 23 ارب روپے، مہمند ڈیم کے لئے چھ ارب روپے اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لئے 14 ارب روپے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ دیگر منصوبے بھی زیر عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین پاکستان معاشی راہداری کے تحت 13 ارب ڈالر مالیت کے 17 بڑے منصوبے مکمل کرلئے گئے ہیں۔21 ارب ڈالر مالیت کے مزید 21 منصوبے جاری ہیں۔ اس کے علاوہ سٹریٹجک نوعیت کے 26 منصوبے منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں جن کی مالیت 28 ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کراچی لاہور موٹروے کی تکمیل، حویلیاں تھاہ کوٹ اور شاہراہ قراقرم فیز ٹو، ژوب کچلاک روڈ، چترال بونی مستوج شندور روڈ کی مرمت اور توسیع، پاکستان ریلویز کی مین لائن ایم ایل ون کی بہتری اور حویلیاں کے قریب ڈرائی پورٹ کی تعمیر اور چین اور دیگر ممالک سے فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ کے ساتھ اکنامک زونز کی آبادکاری اہم ترجیحات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نارتھ ساﺅتھ ریلوے انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لئے ایم ایل ون منصوبے کی لاگت 9.3 ارب ڈالر ہے۔ اسے تین پیکجز میں مکمل کیا جائے گا۔پیکج ون کا آغاز مارچ 2020ءمیں ہو چکا ہے جبکہ پیکج ٹو کا آغاز آئندہ ماہ اور پیکج تھری کا آغاز جولائی 2022ءمیں ہوگا۔ ہماری حکومت اس قومی پراجیکٹ کے کام کو تیز کرنے کی خواہشمند ہے اس سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا اور سامان کی نقل و حمل میں بہتری آئے گی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی پیداواری گنجائش فاضل ہے تاہم ساری کی ساری بجلی اینڈ یوزر تک ترسیل کرنے کے قابل نہیں ہیں، اس کے لئے اسلام آباد ویسٹ اور لاہور نارتھ ایک ہزار کے وی ٹرانسمیشن لائنز کے لئے 7.5 ارب روپے، داسو سے 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے 8.5 ارب روپے، سکی کناری، کوہالہ، ماہل ہائیڈرو پاور پراجیکٹس سے بجلی پیدا کرنے کے لئے ساڑھے پانچ ارب اور حیدرآباد سکھر سیکنڈری ٹرانسمیشن لائنز کے لئے 12 ارب روپے رکھے جانے کی تجویز ہے۔اس کے علاوہ جامشورو میں کوئلے کی مدد سے 1200 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے 22 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی میں کے ون اور کے ٹو منصوبے اور تربیلا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی پانچوی توسیع کے لئے ساڑھے 16 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مختلف علاقوں کے درمیان ترقی کے فرق کو دور کرنے کے لئے حکومتی اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حکومت سے پسماندہ علاقوں کی ترقی یقینی بنانے کے لئے خصوصی ترقیاتی پیکج شروع کئے ہیں ان میں اس مقصد کے لئے 100 ارب روپے مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔جنوبی بلوچستان کے لئے ترقیاتی منصوبے کے تحت 601 ارب روپے کی لاگت سے 199 منصوبوں کی فنڈنگ پر مشتمل پیکج کے تحت اس بجٹ میں 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا کل حجم 739 ارب روپے ہے جس کے لئے 98 ارب روپے وفاقی حکومت دے گی جبکہ سرکاری و نجی شعبہ کے اشتراک سے 509 ارب روپے اور سپریم کورٹ فنڈ سے 125 ارب روپے دیئے جائیں گے۔ اس پلان کے تحت نالوں، دریاﺅں، سڑکوں کی تعمیر ، ماس ٹرانزٹ پراجیکٹس اور واٹر سپلائی کی سہولت فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔گلگت بلتستان سماجی اقتصادی ترقی کے منصوبے کے تحت 162 ارب روپے کی لاگت کے 29 پراجیکٹ شامل ہیں جبکہ اس بجٹ میں اس کے لئے 40 ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں۔ سندھ کے 14 سے زائد اضلاع کے لئے ترقیاتی منصوبہ کے تحت 444 ارب روپے کی لاگت کے 107 منصوبوں کی تکمیل کی جائے گی۔ اس سال بجٹ میں اس مقصد کے لئے ساڑھے 19 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لئے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں، ان میں سے 30 ارب روپے دس سالہ ترقیاتی منصوبے کے لئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ضم شدہ اضلاع کی صنعتوں کے لئے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ دیئے جانے کی تجویز ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ پھلوں کے رس پر عائد فیڈریل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔ قرآن پاک کی اشاعت میں استعمال ہونے والے کاغذ پر چھوٹ کے دائرہ کار کو وسیع کیا جارہا ہے۔ مقامی طور پر تیار کی گئی الیکٹرک گاڑیوں کے لئے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فیصد سے ایک فیصد تک کمی ، الیکٹرک گاڑیوں اور سی کے ڈی کٹس کی درآمد پر ویلیو ایڈیشن ٹیکس کی چھوٹ اور چار پہیوں والی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ شامل ہے۔