پی ٹی ایم اپنے ذاتی مفادات کیلئے نقیب اللہ محسود کو بھول گئے ؟

کراچی کے مضافات میں واقع سہراب گوٹھ اور اس پاس کی محسود آبادیاں وہی علاقے تھے جہاں جنوری 2018 میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں جنوبی وزیرستان کے رہائشی نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ احتجاج کراچی سے خیبرپختونخوا کے علاقوں ٹانک اورڈی آئی خان پہنچا اوروہاں سے منظورپشتین کی قیادت میں نقیب اللہ محسود کے لیے انصاف مانگنے کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے والے جلوس میں ہی پی ٹی ایم کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی اور پی ٹی ایم کی شکل میں محسود نوجوانوں کوایک نئی سیاسی قوت مل گئی۔اس کے بعد پی ٹی ایم کے قائدین نے نقیب اللہ محسود کے نام پر دکانداری شروع کرتے ہو ئے لا تعدادمعصوم پشتونوں کو اپنا ساتھ ملاکر نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے آواز اٹھائی،یہ ڈرامہ کچھ عرصہ چل رہا لیکن بعد میں پی ٹی ایم نے اپنی اصلیت دکھانا شروع کردیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے،گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے چمن میں پی ٹی ایم کے زیر اہتمام ایک جلسے کا انعقاد ہوا، جلسے میں لر اور بر کے نعرے بازی بھی ہوئی منظور پشتین کا پرجوش استقبال بھی ہوا افغانستان کا جھنڈا بھی لہرایا گیا لیکن کسی نے نقیب اللہ شہید کا نام تک بھی نہیں لیا اور نہ کسی نے نقیب اللہ شہید کا تصویر بینر پر لگا کر آیا تھا۔پختون تحفظ موومنٹ جو پہلے محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے جانا جاتا تھا ، نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد شروع کیا گیا پی ٹی ایم تحریک نے پشتونوں کا نام غلط
استعمال کرتے ہو ئے اپنی جلسوں میں سیکورٹی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے،منظور پشتین اور انکی ٹیم کو قبائلی اضلاع میں جاری ترقیاتی منصوبوں سے سخت تکلیف ہے کیونکہ پی ٹی ایم کا مشن قبائلی علاقوں کو پسماندہ رکھنا اور امن وامان خراب کر نا ہے۔