کورونا وائرس سے دنیا کی جی ڈی پی 4.9 فیصد گراوٹ کا شکار ہوگی، آئی ایم ایف

واشنگٹن: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے جو معاشی بحران پیدا ہوا اس کی مثال نہیں ملتی اور رواں سال مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا (ایم ای سی اے) سمیت دنیا کے دیگر ممالک سے مجموعی جی ڈی پی 4.9 فیصد گراوٹ کا شکار ہوگی. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق آئی ایم ایف نے اپنے تازہ ترین عالمی معاشی آوٹ لک میں کہا کہ 21-2020 کے دوران عالمی معیشت کو 12 ہزار ارب ڈالر کا نقصان متوقع ہے اور دنیا بھر میں کاروبار بند ہونے سے کروڑوں ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق معیشت کی بحالی کے امکانات بھی خطرے سے دوچار ہیں‘عالمی ادارے نے پیش گوئی کی کہ اگلے سال کے لیے عالمی شرح نمو 5.4 فیصد ہوسکتی ہے جو گزشتہ تخمینے سے 0.4 فیصد کم ہے.ادارے کا کہنا ہے کہ ایم ای سی اے خطوں میں شرح نمو 3.3 فیصد کی پیش گوئی ہے واضح رہے کہ عالمی سطح پر اعلان کردہ مالی اعانت 11 ہزار ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئی ہے جو اپریل میں 8 ہزار ارب ڈالر تھی آئی ایم ایف کی چیف ماہر معاشیات گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ ان تخمینوں سے 21-2020 کے دوران عالمی معیشت کو 12 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کے مجموعی نقصان ہونے کا خطرہ ہے، جبکہ اس سے دو ماہ قبل تخمینہ 9 ہزار ارب ڈالر تھا.

انہوں نے کہا کہ جہاں لاک ڈاﺅن کی ضرورت ہے وہاں معاشی پالیسیوں کے ذریعے گھریلو آمدنی کے نقصانات کو کم کرنے اور صنعتوں کو مالی مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے‘انہوں نے کہا کہ جہاں معیشتیں دوبارہ کھل رہی ہیں وہاں بحالی کا کام چلنے کے ساتھ ہی اہداف طے کر لینا چاہیے واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ وہ کورونا وائرس سے متاثرہ اور معاشی اثرات سے نبرد آزما ممالک کی مدد کے لیے 10 کھرب ڈالر قرضہ دینے کے لیے تیار ہے.15 مارچ کو امریکی فیڈرل ریزرو نے معاشی نمو کی حوصلہ افزائی کے لیے سود کی شرح صفر کردی تھی اس سے قبل 7 مارچ کو آئی ایم ایف نے حکومتوں پر زور دیا تھا کہ عوام کو کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے عالمی طبی بحران کے معاشی اثرات سے تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے. واشنگٹن میں آئی ایم ایف کی جانب سے جاری گائیڈ لائنز میں کہا گیا تھا کہ جو سب سے زیادہ متاثر ہیں انہیں اپنی غلطی کے بغیر دیوالیہ نہیں ہونا چاہیے‘ یہ بھی کہا گیا کہ سیاحت پر انحصار کرنے والے ملک میں ایک خاندان کی جانب سے چلائے جانے والے ریسٹورنٹ یا قرنطینہ کی وجہ سے بند ہونے والی فیکٹری کے ملازمین کو اس بحران میں تعاون کی ضرورت ہے.