پختونستان تحریک زور و شور سے شروع کرنے کے لئیے منظورپشتین کو ہٹا کر افراسیاب کو پی ٹی ایم کا لیڈر بنانے کا امکان

پشاور:پی ٹی ایم رہنماءمنظور پشتین کے متبادل افراسیاب خٹک کو میدان میں اتار دیا گیا۔ پی ٹی ایم کو اب باقاعدہ پارلیمانی تنظیم بناکر قیادت کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ پی ٹی ایم میں موجود عناصر جو درپردہ منظور کو ناکام بنانے کیلئے کافی عرصے سے متحرک تھے اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔حکومت کی جانب سے پشتون تحفظ مومنٹ کے کئی مطالبات تسلیم کئے جانے کے باوجود پی ٹی ایم کے کرتا دھرتا بیرون ملک سے تنظیم کو این جی اوز کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے سماجی کارکنوں کے نام پر پنجاب کے این جی اوز اہلکاروں کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نہ صرف توجہ ہٹائی جائے، اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سابق ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بین الاقوامی اور قومی میڈیا کے نمائندوں کو شمالی وزیرستان کا دورہ کرایا تو اس کے دوسرے روز ہی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ کسی کے شمالی وزیرستان جانے پر پابندی نہیں ہے۔ جس پر پی ٹی ایم کے ساتھ تعاون پر اے این پی سے نکالی گئی سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر اور ان کے ساتھی، خیسور واقعہ کے نام پر وزیرستان پہنچ گئے اور انہوں نے وہاں حیات خان وزیر کے گھر جاکر تصاویر بنائیں۔ پھر یہ تصاویر بین الاقوامی میڈیا میں شیئر کی گئیں۔ اس کا مقصد بین الاقوامی اور قومی میڈیا کے دورۂ شمالی وزیرستان سے پاکستان کا جو امیج بنتا جارہا تھا، اس کو کائونٹر کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب سے ندا کرمانی سمیت دیگر سماجی کارکنوں نے سرخ سلام کے نام پر ان خواتین کے وزیرستان جانے کو سوشل میڈیا پر پھیلانا شروع کر دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ منظور پشتین کے پیچھے افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر سمیت اے این پی کے وہ لوگ کھڑے ہیں، جو ماضی میں پختونستان کے لئے تحریک چلانے میں پیش پیش تھے۔ اب یہ افراد اسی تحریک کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر سمیت اے این پی کے بعض رہنما، پارٹی کے حکومت میں شامل ہونے اور پاکستان کے آئین کے ساتھ جڑے رہنے کی پالیسی کے خلاف تھے۔ تاہم ماضی میں بشریٰ گوہر، جمیلہ گیلانی اور افراسیاب خٹک نے نہ صرف حکومتوں کے مزے اڑائے، بلکہ حکومتی وسائل بھی استعمال کئے۔ اے این پی حکومت میں انہوں نے سرکاری وسائل کو اپنے اور اپنے ساتھیوں کیلئے استعمال کیا۔ لیکن اب چونکہ انہیں دنیا کے ساتھ رابطہ کرنے کے لئے کافی وسائل دستیاب ہیں، اس لئے وہ پی ٹی ایم کی آڑ میں اپنے پرانے مطالبات کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے بقول افراسیاب خٹک کی پاکستان کے ساتھ مخاصمت کی بنیادی وجہ ان کے سالے ڈاکٹر نجیب کی طالبان کے ہاتھوں پھانسی ہے۔ کیونکہ یہ ڈاکٹر نجیب کے مشیر بھی تھے اور ڈاکٹر نجیب کی بہن کے شوہر بھی ہیں۔ لہذا ڈاکٹر نجیب کی پھانسی پر ان کا یہ خیال تھا کہ اس پھانسی کے پیچھے پاکستان کے اداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم کئی سال کی تحقیقات کے بعد بھی یہ بات ثابت نہ ہوسکی کہ پاکستان کا ڈاکٹر نجیب کی پھانسی میں ہاتھ تھا۔ ذرائع کے بقول افراسیاب خٹک کی پاکستانی ریاست کے ساتھ مخاصمت کی بنیادی وجہ پختونوں کے حقوق نہیں، بلکہ ذاتی رنجش ہے۔ جبکہ بشریٰ گوہر اور دیگر افراد جن میں جمیلہ گیلانی، ڈاکٹر سید عالم محسود اور دیگر لوگ شامل ہیں، وہ باہر سے آنے والی امداد کے منتظر ہیں کہ این جی اوز کے ذریعے انہیں پیسے ملیں گے۔ بشریٰ گوہر کا این جی اوز چلانے کا وسیع تجربہ ہے۔ جبکہ دیگر افراد نے بھی این جی اوز چلائی ہیں۔ سید عالم محسود اس سے قبل کوریڈور فرنٹ کے نام پر سی پیک کے خلاف پوری مہم چلا چکے ہیں۔ اس لئے سید عالم کا پی ٹی ایم کے ساتھ وابستہ ہونا لوگوں کی سمجھ میں آتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اصل میں منظور پشتین کو یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ان سے بڑے لوگ ان کے پیچھے کیوں کھڑے ہیں۔ ان سے بڑے سیاسی پارٹیوں کے عہدوں پر رہنے والے انہیں اپنا رہنما کیوں تسلیم کر رہے ہیں۔ اصل میں منظور پشتین کو پی ٹی ایم سے الگ کردیا جائیگا اور پی ٹی ایم کی سربراہی افراسیاب کو سونپ دی جا ئیگی جبکہ علی وزیر اور محسن داوڑ صرف اور صرف پارلیمانی سیاست کرینگے، ملک دشمن عناصرمنظور پشتین کو اپنے مقاصد کیلئے ردی کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔