جاری مالی سال کے دوران پاکستان کو چھ ارب ڈالر کی معاونت ملے گی

اسلام آباد:نگراں وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات ڈاکٹرشمشاداخترنے کہاہے کہ کلی معیشت کااستحکام اور پائیدار نمو ہمارامطمع نظرہے ، کوشش ہے کہ معیشت کا احیاء ہو جس کیلئے کام ہورہاہے، ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے پروگرام کے دوران سماجی تحفظ کے پروگراموں اور مالیاتی شمولیت پرتوجہ دی جائے گی، نومبرمیں آئی ایم ایف کاجائزہ ہوگا جس کے بعد پاکستان کونئی قسط مل جائیگی، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے بھی مختلف منصوبوں کیلئے معاونت ملے گی، جاری مالی سال کے دوران پاکستان کوچھ ارب ڈالرکی معاونت ملے گی۔انہوں نے یہ بات خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد نگراں وزیراطلاعات ونشریات مرتضیٰ سولنگی، وزیرتجارت گوہراعجاز اور وزیرتوانائی محمدعلی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ پرنسپل انفارمیشن آفیسر محمد عاصم کھچی بھی اس موقع پرموجودتھے۔ نگراں وزیرخزانہ ڈاکٹرشمشاد اخترنے کہاکہ نگراں حکومت نے ایک ٹیم کے طورپرکام کرنے کااصول بنایا ہے، ہم ایک ٹیم کے طورپرجامع اور موثراندازمیں کام کریں گے، معاشی اہمیت کے حامل ادارے مل کرکام کریں گے،ای سی سی سمیت کابینہ کی تمام کمیٹیوں نے کام شروع کردیا ہے۔نگراں وزیرخزانہ نے کہاکہ کلی معیشت کااستحکام اور پائیدارنمو ہمارامطمع نظرہے اس مقصدکیلئے معیشت کومستحکم کرنا ہے، ہماری کوشش ہے کہ معیشت کا احیاء نوہو جس کیلئے کام ہورہاہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے پروگرام کے دوران سماجی تحفظ کے پروگراموں اور مالیاتی شمولیت پرتوجہ دی جائے، اس ضمن میں راست پروگرام کوجامع اور موثراندازمیں آگے بڑھایا جارہاہے۔ خسارے میں جانیوالے سرکاری اداروں (ایس اوایز) کاذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ نقصان میں جانے والے اداروں کا قومی خزانہ پربوجھ پڑرہاہے، ان اداروں کے حوالہ سے پالیسی تیارہورہی ہے، اس ضمن میں ایک مرکزی مانیٹرنگ یونٹ قائم کیا جائیگا جو ان اداروں سے متعلق امورکی نگرانی کرے گا۔انہوں نے کہاکہ سرکاری کاروباری اداروں میں کارپوریٹ گورننس کوبہتربنایا جائیگا تاکہ اس کی فائدہ مند نجکاری میں مددمل سکے۔انہوں نے کہاکہ سرکاری کاروباری اداروں کے قرضوں کابوجھ بینکنگ کے نظام پرہے، اس بوجھ کوکیپٹل مارکیٹ سے بھی منسلک کیا جارہاہے،ہماری کوشش ہوگی کہ حکومتی سکیورٹیز کوپاکستان سٹاک ایکسچینج میں فلوٹ کیا جائے اس سے عام آدمی بھی حکومتی سکیورٹیز میں سرمایہ کاری کا حامل ہوجائیگا۔ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ درآمدات کھولنا یا پابندیاں ہٹانا صنعتوں کیلئے ضروری ہے، اس سے صنعتیں چلیں گی۔ انہوں نے کہاکہ برآمدات اور ترسیلات زرمیں کمی سے زرمبادلہ پردبائو ہے مگرہماری عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگرکثیرالجہتی اداروں کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے،نومبرمیں آئی ایم ایف کاجائزہ ہوگا جس کے بعد پاکستان کونئی قسط مل جائیگی، اس کے علاوہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے بھی مختلف منصوبوں کیلئے معاونت ملے گی، اس مقصدکیلئے ان اداروں کے ساتھ امورکوتیزی سے طے کرنے پرکام ہورہاہے، اندازہ ہے کہ جاری مالی سال کے دوران پاکستان کوچھ ارب ڈالرکی معاونت ملے گی۔ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ غیردستاویزی معیشت اور مارکیٹ کاحجم بتانا مشکل ہے، ہماری کوشش ہے کہ کرنسی اور اشیاء کی سمگلنگ کے خاتمہ کیلئے موثرانداز میں کام کیا جائے۔گزشتہ چند روز میں اس حوالہ سے اقدامات کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ملکی معیشت کی صورتحال فی الوقت ٹھیک ہے۔نگراں وزیرتجارت گوہراعجازنے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ گزشتہ چند ماہ میں درآمدات پرپابندیوں کی وجہ سے رسد میں رکاوٹیں پیداہورہی تھیں، آج کے اجلاس میں ہمارا موقف تھا کہ درآمدی مارکیٹ کوکھولنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے رسد میں رکاوٹوں اور بعض اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ پر قابو پایا جا سکتاہے، درآمدات کھولنے سے خام مال زیادہ آئیگا جس سے ہماری برآمدات بڑھیں گی اور لوگوں کوروزگارکے زیادہ سے زیادہ مواقع میسرہوں گے۔انہوں نے کہاکہ 2022 میں ہماری درآمدات 78 ارب ڈالرتھی جبکہ برآمدات اور ترسیلات زر کاحجم 55 اور 56 ارب ڈالرکے درمیان تھا، گزشتہ حکومت نے درآمدی بل کو55 ارب ڈالرتک کم کردیاتھا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے معیشت،صنعت اور درآمدات کو اب کھولنے کافیصلہ کیاہے۔ انہوں نے کہاکہ خام مال، توانائی کی قیمتیں اور گیس کی دستیابی سے متعلق امورکابھی جائزہ لیاگیا، ہمیں صنعتوں کوترجیح دینا ہے کیونکہ صنعتیں چلنے سے لوگوں کوروزگارملے گا اور مہنگائی میں کمی آئیگی۔انہوں نے کہاکہ آج اجلاس میں سمگلنگ کے خاتمہ کا بھی تفصیل سے جائزہ لیاگیا۔ ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ ملک میں چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں، سیزن کے آغاز سے قبل ہمارے پاس کیری اوور سٹاک میں 8 لاکھ ملین ٹن سے زیادہ چینی موجود ہے جبکہ ہماری ماہانہ ضرورت 6 لاکھ ہے۔