پرانی قدیم تاریخ اور گندھارا تہذیب کا گھر پشاور فاتحین، تاجروں اور سیاحوں کے توجہ کا مرکز

پشاور:برصغیر کا ایک گیٹ وے ہونے کی حیثیت سے تقریباً 3,000 سال پرانی قدیم تاریخ اور گندھارا تہذیب کا گھر پشاور فاتحین، تاجروں اور سیاحوں کے لیے ہمیشہ سے توجہ کا مرکز رہا ہے۔ متحدہ ہندوستان کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے مختلف دور کے بادشاہوں اور دولت مند خاندانوں نے پشاور میں قلعے، حویلیاں اور بنگلے تعمیر کیے تھے تاکہ علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرکے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمایا جا سکے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغل، انگریز اور سکھ دور کے یہ تاریخی مقامات سرپرستی کی کمی، بدلتے ہوئے موسمی حالات اور مالی مفادات کی وجہ سے اپنی شان کھونے لگے۔ خان کلب مغل دور کی ایسی عمارتوں میں سے ایک ہے جو مالیاتی فائدے کے لیے آٹے کے گوداموں اور جنرل اسٹورز میں تبدیل ہونے کے بعد اپنا دلکش قدیم فن تعمیر اور لکڑی کے نادر کام کے آثار کھو رہی ہے۔تاریخی چوک یادگار کے قریب واقع خان کلب کی چار منزلہ عمارت جو مغلوں نے 1800 عیسوی صدی میں پانچ مرلہ اراضی پر تعمیر کی تھی اس وقت سیاحوں اور فن سے محبت کرنے والوں کے لیے کوئی سہولت نہ ہونے کے باعث خستہ حالی کا شکار ہے جس کے لیے یہ کبھی مشہور تھا،آٹے، چارے اور روزمرہ کے استعمال کے دیگر سامان کی خاک آلود بوتیک طرز کی عمارت کو دیکھ کر اس عمارت کو دیکھنے کے کے لیے آنے والے مایوس ہو جائیں گے،محکمہ عجائب گھر و آثارِ قدیمہ خیبرپختونخوا کے سینئر ریسرچ آفیسر بخت زادہ خان نے اے پی پی کو بتایا کہ خان کلب پشاور کی ایک تاریخی عمارت تھی جسے 1995 میں ایک آئرش امریکن مارٹین جے ڈیوس کے تعاون سے پشاور کے رہائشی عنایت اللہ خان نے ہوٹل میں تبدیل کیا تھا۔ اس عمارت نے اپنے منفرد لکڑی کے آرٹ ورک اور پرامن ماحول کی وجہ سے مختصر وقت نے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔انہوں نے کہا کہ یہاں پر سیاح ثقافتی پروگراموں کے علاوہ تاریخی قصہ خوانی میں مقامی روایتی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے تھے اور قہوے کے ساتھ انواع و اقسام کے کھانوں کا مزہ لیتے تھے، یہاں پر بین الاقوامی تاجر رات کو قیام کرتے تھے اور ایک دوسرے کی ثقافت، زبان اور ورثے کے بارے میں کہانیوں کا تبادلہ کرتے تھے. سابق صدر سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری فواد اسحاق نے اے پی پی کو بتایا کہ کلب میں مغل دور کا ایک ریسٹورنٹ تھا جہاں سیاح تکیوں پر بیٹھ کر رباب، ستار اور طبلے کی روایتی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے تھے اور پر سکون ماحول دیکھنے والوں کے ذہنوں پر ناقابل فراموش نقوش چھوڑ جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس تاریخی حویلی کی طرز کی عمارت کو محفوظ کیا جائے۔خان کلب سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر برطانوی دور میں تعمیر ہونے والا محلہ سیٹھیان میں سیٹھی ہاؤس واقع ہے جو لکڑی کے نایاب کام اور فن تعمیر کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ تاریخی عمارت 1886 میں بخارا ازبکستان کے مسلمانوں کے فن تعمیر سے متاثر ہو کر سیٹھی کریم بخش نے 33 مرلے پر تعمیر کی تھی جو ایک بین الاقوامی تاجر تھے اور ان کا کاروبار و تجارت خصوصاً وسطی ایشیائی ریاستوں تک پھیلا ہوا تھا.اس عمارت میں تہہ خانے، صحن اور پہلی منزل کے حصے شامل ہیں۔ پاکستان کے سابق سفیر منظور الحق نے اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیٹھی ہاؤس پشاور کی ایک الگ پہچان ہے اور اس تعمیراتی عجوبے کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اس کے جدید دور کے سدا بہار فن تعمیر، ہوا دار ڈھانچے اور منفرد آرکیٹیکچرل ڈیزائن سے بہت متاثر ہوں جو دنیا میں کم ہی ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک میں حکومتیں اس طرح کی تعمیراتی عمارتوں اور ثقافتی ورثے کی سیاحت سے بھاری رقم کماتی ہیں. پاکستان گندھارا اور سندھ کی تہذیبوں کا گھر ہے جس میں یونیسکو کے ثقافتی ورثے کی کافی جگہیں ہیں، اگر اس کی مناسب دیکھ بھال کی جائے تو اس کے بڑے پیمانے پر معاشی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ان مقامات کو ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے دنیا کو دکھانا چاہیے. انہوں نے کہا کہ حکومتی محکموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے قدیم ورثے کی حفاظت اور حفاظت کریں. اسی طرح عوام اور سول سوسائٹی پر یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پشاور کے عجائب گھر، گور گھٹری، تخت بھائی، ٹیکسلا، سوات اور موہنجو داڑو جیسے پاکستانی ورثے کی ویڈیوز اور کلپس دنیا میں پھیلائیں۔ انہوں نے آثار قدیمہ اور مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے سندھ اور گندھارا تہذیبوں کے مختلف مقامات کے تھری ڈی ماڈل بنانے کی تجویز دی. قاہرہ اور ریاض میں پاکستان کے سفارت کار کے طور پر خدمات انجام دینے والے منظور نے مزید کہا کہ گندھارا اور سندھ کی تہذیبوں پر ڈرامے اور فلمیں بنانے کے لیے افسانوی اور فیچر کہانیاں تخلیق کی جا سکتی ہیں کیونکہ مغربی دنیا نے مختلف فلموں جیسے انڈیانا جونز اور دی ممی میں مصری تہذیب پر کہانیاں فلمائی ہیں۔سیٹھی ہاؤس کی تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بخت زادہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے ثقافتی ورثے کے ٹرائل پروجیکٹ کے تحت اسے محفوظ کرنے کے بعد اسے ایک مکمل میوزیم میں تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پراجیکٹ کے تحت قدیم گھنٹہ گھر سے گور گھٹری(گور کھتری) تک تقریباً 5000 میٹر طویل علاقے کی تزئین و آرائش کی گئی ہے جس میں مغل، برطانوی اور سکھ دور کی 85 تاریخی عمارتیں شامل ہیں۔ نوآبادیاتی دور میں تعمیر ہونے والی پشاور چھاؤنی میں وادی علی مردان خان اور گور گھٹری پشاور شہر میں مغل دور کی قدیم سرائیوں کی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانوی دور میں تعمیر ہونے والے تاریخی پشاور میوزیم کے تحفظ کی تکمیل کے علاوہ جس میں 30,000 سے زائد نادر نمونے اور بدھ کی زندگی کی کہانیاں موجود ہیں، 160 ملین روپے کی تخمینہ لاگت سے تاریخی مہابت خان مسجد کے تحفظ کا کام بھی جاری ہے۔ یہ رقم مسجد کے تحفط کے علاوہ پشاور میوزیم کی طرز پر رات کے وقت اس کی خوبصورتی، سجاوٹ اور روشنی کے نظام پر استعمال کیا جائے گا۔ بخت زادہ نے بتایا کہ آئندہ سال تک بین الاقوامی معیار کے مطابق تاریخی مسجد کے تحفظ کا کام مکمل کرنے کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔