پاکستان نے 4 دہائیوں تک بغیر کسی امتیاز کے 40 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کی

اسلام آباد:صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سویڈن میں قرآن پاک کو جلانے اور بے حرمتی کے گھناؤنے فعل کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اس گھناؤنے فعل کا نوٹس لیکر انصاف کی فراہمی کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے اور اس طرح کے افسوسناک واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کرے، تمام مذاہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کا احترام اور تحفظ ضروری ہے اور کسی کو بھی آزادی اظہار کی آڑ میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور ان کی توہین کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ صدر مملکت نے ان خیالات کا اظہار اسلام آباد میں بین الاقوامی بین المذاہب امن کانفرنس بعنوان ”انسانیت کا احترام اور اس کی اہمیت” کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے پر زور دیا جس میں ہر ایک کو دوسرے کے مذاہب میں مداخلت کئے بغیر اپنے مذہب پر عمل کرنے، سیاسی، سماجی، ثقافتی، قانونی اور مذہبی آزادیوں کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ صدر نے کہا کہ اسلام تمام مذاہب کے پیروکاروں کی عبادت گاہوں کا احترام اور ان کی حفاظت کرنے کا درس دیتا ہے۔ اس موقع پر چیئرمین بین المذاہب کونسل برائے امن و ہم آہنگی مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد اور کمیونٹی آف سینٹ ایگیڈیو کے بانی پروفیسر ڈاکٹر آندریا ریکارڈی نے بھی خطاب کیا جبکہ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل عبدالکریم العیسیٰ نے ویڈیو پیغام کے ذریعے خطاب کیا۔ تقریب میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی شرکت کی۔کانفرنس میں مختلف مذاہب کے قومی اور بین الاقوامی سکالرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ سفارتکاروں نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ دنیا کے تمام مذاہب نے معاشرے میں امن، سلامتی اور ہم آہنگی کا درس دیا ہے لیکن بدقسمتی سے مختلف مذاہب کے ماننے والے ان تعلیمات کو نظر انداز کرکے مخصوص مفادات، قوم پرستی، نسل پرستی اور سیاسی بنیادوں پر جنگ کا سہارا لیتے ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ اسلامی معاشرے کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے مذہبی مقامات کی حفاظت، ان کے مذہبی رہنماؤں کا تحفظ اور احترام کرے اور انہیں قانون کے تحت مساوی حقوق فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم معاشروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کی عزت، آبرو، جان و مال کی حفاظت کریں۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ مذہب کو غلط طور پر جنگ کی وجہ قرار دیا جاتا ہے لیکن حالیہ تاریخ میں زیادہ تر جنگیں ان ممالک کی طرف سے لڑی گئیں جن کے پاس علم، تعلیم اور معلومات تھیں اور وہ ترقی یافتہ تھے لیکن پھر بھی وہ آپس میں اور دوسروں کے ساتھ توسیع پسندانہ عزائم اور ذاتی مفادات کے لئے لڑتے رہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ انسان اپنے اردگرد کی حقیقت سے مشاہدہ کرنے سے زیادہ سیکھتا ہے۔ امریکہ اور سوویت یونین نے غلطی کرتے ہوئے ویتنام اور افغانستان پر حملہ کیا اور تلخ سبق سیکھا لیکن جلد ہی بھول گئے اور افغانستان اور یوکرین پر دوبارہ حملہ کردیا، یہودی ہولوکاسٹ کے دردناک تجربے سے گزرے لیکن وہی یہودی جو ہولوکاسٹ کا شکار ہوئے وہ اپنا تجربہ بھول گئے اور وہ فلسطینیوں پر ظلم اور غیر انسانی سلوک کر رہے ہیں۔صدر نے سویڈن میں قرآن پاک کو جلانے اور بے حرمتی کے گھناؤنے فعل کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس گھناؤنے فعل کا نوٹس لے اور انصاف کی فراہمی کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے اور اس طرح کے افسوسناک واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کرے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کا احترام اور تحفظ ضروری ہے اور کسی کو بھی آزادی اظہار کی آڑ میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور ان کی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ صدر مملکت نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر، تشدد پر اکسانے والی تقاریر، نسل پرستی اور تعصب کو تمام فورمز پر روکنے اور ان کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔انہوں نے پناہ گزینوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پناہ گزینوں کے ساتھ ان کے رنگ، نسل، مذہب یا مقام کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان نے 4 دہائیوں تک بغیر کسی امتیاز کے 40 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کی، دنیا کو پاکستان کی سخاوت اور تجربات سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر اینڈریا ریکارڈی نے بھی خطاب کیا اور افغان مہاجرین کی پاکستان میں میزبانی کو سراہا۔انہوں نے کہا کہ برادریوں کے درمیان مکالمے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف مذاہب کو پرامن طور پر ایک ساتھ رہنے کی ضرورت ہے، اقلیتوں کو اپنی شناخت کا حق حاصل ہے کیونکہ اس سے قوم کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کی تمام سطحوں پر مکالمے کو فروغ دیا جانا چاہئے اور مختلف مذاہب کو بھلائی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے مقابلہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مذاہب دنیا میں جنگوں، تنازعات اور نفرت کو کم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل عبدالکریم العیسیٰ نے اپنے پیغام میں باہمی بقائے باہمی، محبت اور انسانیت پر مبنی بین الاقوامی معاشرے کے قیام پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ مذاہب اور مذہبی عقائد میں عظیم تنوع کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے اور لوگوں کو اس حکمت کو سیکھنے اور اختلافات اور نظریات کے تنوع کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ امن اور ہم آہنگی سے رہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف مذہبی برادریوں کو نفرت اور اختلافات کو فروغ دینے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ آنے اور اپنے درمیان مشترکات پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔مولانا عبدالخبیر آزاد نے اس موقع پر نفرت انگیز تقاریر کی روک تھام کے لئے بین الاقوامی قوانین کے قیام پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور مختلف خیالات کے حامل لوگوں کو پرامن طریقے سے مل جل کر رہنے کے لئے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان محبت، رواداری، مہمان نوازی کا پرچم اٹھانے والا ملک ہے اور اس نے دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی علمائے کرام نے خودکش حملوں، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متفقہ فتویٰجاری کیا ہے۔ قبل ازیں صدر مملکت نے مختلف مذاہب کے نمائندوں میں امن، ہم آہنگی اور احترام انسانیت کے لیے ان کی کوششوں پر ایوارڈز تقسیم کئے۔