کرم: پاک افغان کشیدگی ختم، مذاکرات کامیاب

اسلام آباد:وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز ترقی وانسانی وسائل ساجد حسین طوری نے ضلع کرم کے علاقے خرلاچی اور بورکی میں پاک افغان سرحد کا دورہ کیا جہاں سرحدی حکام نے انہیں سرحدی صورتحال پر بریفنگ دی۔دو طرفہ مذاکرات میں پاک افغان سرحد تجارت اور آمد و رفت کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔وفاقی وزیر کے ہمراہ قبائلی عمائدین، انجمن حسینی و تحریک حسینی کے اراکین، ضلعی انتظامیہ کے حکام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرحدی فورس کے اہلکار بھی موجود تھے۔سرحد پر وفاقی وزیر ساجد حسین طوری نے دونوں اطراف کے قبائلی عمائدین کے درمیان جرگے کی قیادت کی اور تمام تنازعات اور اختلافات کو دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔پاک افغان بارڈر کا دورہ کرنے سے قبل وفاقی وزیر نے ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر آفس میں طوری، بنگش اور کرم کے دیگر قبائل کے عمائدین، انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی کے اراکین کے ساتھ جرگہ کرکے تفصیلی گفتگوکی گئی۔جہاں سرحد پر حالیہ جھڑپوں سے متعلق تمام امور زیر غور آئے۔جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر ساجد حسین طوری نے کہا کہ جنگ اور دہشت گردی کی وجہ سے سرحد کے دونوں اطراف کے لوگوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک امن و استحکام کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔انہوں نے سکیورٹی فورسز، ضلعی انتظامیہ اور دو طرفہ جرگہ کے اراکین کی انتھک کوششوں کو سراہا۔افغان قبائلی عمائدین سے گفتگو کرتے ہوئےساجد حسین طوری نے کہا کہ سرحد کے دونوں جانب کے قبائل آپس میں بھائی ہیں اور دونوں کے درمیان زمینی تنازعات کو دو طرفہ جرگے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے تاکہ امن کو یقینی بنایا جا سکے اور دونوں ہمسایوں کے درمیان برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کو مضبوط کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ہم نے زمین کے تنازع پر افغان حکومت کے ساتھ جرگے اور مذاکرات کیے تھے جنہیں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے دونوں اطراف کے قبائلی عمائدین پر زور دیا کہ وہ زمین کے تنازعات پر جلد جرگہ بلائیں اور ان سے پوچھیں کہ کیا اس سلسلے میں کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔دونوں اطراف کے قبائلی عمائدین نے وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کے پاک افغان سرحد کے دورے کو سراہا اور خطے میں امن کے لیے ان کی کوششوں کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارت اور نقل و حرکت دونوں کے لیے سرحد کے دوبارہ کھلنے سے دونوں اطراف کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے جس سے امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔