بھارت میں 60 لاکھ افراد بے روزگار

نئی دہلی : پاکستان اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے کشیدہ حالات کی وجہ سے بھارت کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے اور مودی حکومت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کرنا چھوڑ دی ہے جس کے نتیجے میں بھارت میں 40 ہزار سے زائد چھوٹی بڑی صنعتیں بند ہو گئیں اور ایک اندازے کے مطابق 60 لاکھ افراد بے روزگار ہو گئے ہیں، سب سے زیادہ تشویش اس بات کی ہے کہ نامور ماہرین اقتصادیات حکومت کو چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔

قومی اخبار میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت میں سب سے پہلے ریزرو بنک کے گورنر مستعفی ہوئے، پھر ارجٹ پٹیل، ارند سبرمین اور اب اقتصادی کمیٹی کے چیئرمین ویوک دیورائے نے بھی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔اب اس وقت حکومت کے پاس کوئی بھی مایہ ناز ماہر اقتصادیات نہیں ہے جو ملک میں بڑھتے ہوئے اقتصادی بحران کو لگام ڈال سکے۔

رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کا یہ حال ہے کہ مریض کا جسم کانپ رہا ہے ، نرس دوسری طرف منہ کر کے بیٹھی ہے ، تھرما میٹر کو توڑ دیا گیا ہے اور اب ڈاکٹر کو بھی بھگایا جا رہا ہے ۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے مودی سرکار کو خبردار کیا ہے کہ اگر مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات کو بہتر نہ کیا تو اس کے نتیجے میں بھارت کی معیشت بنگلہ دیش سے بھی نیچے آ سکتی ہے۔

پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے بھارت کی آٹو انڈسٹری بُری طرح متاثر ہوئی۔ٹیکسٹائل ملز سے بھی لاکھوں لوگوں کو نکال دیا گیا۔ نوکریاں ختم ہونے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد مایوس اور پریشانی کے عالم میں فیکٹریوں سے باہر آ رہی ہے ۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے اس ضمن میں ہوشربا اعداد وشمار دے کر سب کو حیران کر دیا کہ 25 سے 50 لاکھ افراد صرف ٹیکسٹائل ملز کے بند ہونے سے بے روزگار ہوئے ، پہلے تو کسی نے بھی اس دعوے پر یقین نہیں کیا لیکن بھارتی ٹیکسٹائل ملز یونین نے اخبارات میں اشتہارات دے کر حکومتی دعووں کی قلعی کھول دی ۔