جموں کشمیر کو ریلوے نیٹ ورک کیساتھ ملانے کیلئے بھارت نے غیر قانونی پل کی تعمیر شروع کر دی

اسلام آباد:اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کے تحت جموں و کشمیرپر بھارت کا غیر قانونی طور پر قبضہ ہے اوربھارت فوجی ذرائع سے خطے کو نوآبادیاتی بنانے کے لیے مسلسل اقدامات کر رہا ہے۔خطے کو اپنی فوج کے لیے مزید قابل رسائی بنانے کے لیے بھارت کا تازہ ترین اقدام دریائے چناب پر چناب ریلوے پل کی تعمیر ہے۔بھارت نے دریائے چناب پر ریلوے پل جموں وکشمیر کے متنازعہ علاقہ کو بھارت کے بڑے ریل نیٹ ورک سے ملانے کے لیے غیر قانونی طور پر تعمیر کیاہےاور اس کے ذریعہ اس نے اپنے فوجی سازوسامان اور رسد کومزید قابل رسائی بنایاہے۔بھارت کے اس غیر قانونی منصوبہ سے کشمیریوں کو شدید خوف اور پریشانی ہے جو پہلے ہی بدنام زمانہ بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں اور دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔کشمیری بھارت کے مذموم اور نوآبادیاتی عزائم سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ حالیہ برسوں میں کشمیر کی خودمختاری کو منظم طریقے سے چھین لیا گیا ہے، اور پہاڑی علاقہ پر نا پسندیدہ ریلوےپل کی تعمیرزیادہ بھارتی کنٹرول اور قبضہ کا اشارہ دیتی ہے،کشمیری عوام اور قیادت کو خطے کے امن و استحکام کے حوالے سے سخت تشویش ہے جن کاپختہ یقین ہے کہ یہ ریلوے پل کشمیر میں مزید عدم استحکام لائے گا جو پہلے ہی غیر قانونی بھارتی قبضے اور غیر منصفانہ آبادیاتی تبدیلیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں کشمیریوں کو یقین ہے کہ اس پل کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جانب سے قرار دیئے گئے متنازعہ علاقہ میں بڑے پیمانے پر آبادی کی منتقلی ہوگی جو یقینی طور پر اس خطے کی شناخت کو تباہ کر دے گی جہاں بھارت کھلے عام اپنے استعماری اور سامراجی عزائم پر عمل پیرا ہے۔پاکستان اور بھارت 1947 سے مسلم اکثریتی علاقے پر لڑ تے رہے ہیں، رائے عامہ سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق یا ایک آزاد ریاست بننا چاہتے ہیں، اور حالیہ دہائیوں میں بھارتی حکام نے کشمیریوں کی جاری جدوجہدآزادی کو دبانے کے لیے مظالم میں اضافہ کیا جہاں بھارتی سکیورٹی فورسز انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں ،ماورائے عدالت قتل اور خواتین کی آبروریزی کے جرائم میں ملوث ہے،بھارتی افواج کشمیریوں کی پرامن سیاسی آزادی کی تحریک کو دبا نے کی کوشش کررہی ہیں، 1990 میں کشمیر کی آزادی کی تحریک کو8لاکھ سے زائدفوجی اور نیم فوجی دستوں نے طاقت کے وحشیانہ استعمال سے کچلا، ان فوجی دستوں نے کبھی مقبوضہ خطہ نہیں چھوڑا اور اس وقت کشمیر وحشیانہ بربریت کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا فوجی خطہ ہے ،بھارت متنازعہ علاقے کو پل کے ذریعے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس پراپنی گرفت مضبوط کی جا سکے جس کا حتمی مقصد کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم کرنا ہے حالانکہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔2019 کے بعد سے جب بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو تبدیل کیا اور اختلاف رائے کو روکنے کے لیے پورے خطے میں مواصلاتی بلیک آؤٹ کیا،بھارت نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی شدید خلاف ورزیوں میں آبادیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی پالیسیوں کو مستقل طور پر آگے بڑھایا ہے۔جس کے بعد، ریاست کو جموں اور کشمیر سے لداخ کو الگ کرتے ہوئے دو علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا،پرانے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو منسوخ کر دیا گیا اور اس کی جگہ ایک نیا ڈومیسائل آرڈیننس لایا گیا جو جموں و کشمیر میں لاکھوں ہندوستانیوں کو ڈومیسائل کے حقوق فراہم کرتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں تقریباً 4.3 ملین بھارتی ہندوؤں کو ڈومیسائل دیا گیا۔ 25 لاکھ بھارتی شہریوں کو متنازعہ علاقے میں آئندہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے بیلٹ بھی جاری کیے گئے ۔ مقبوضہ وادی میں اس اقدام سے مقامی کشمیریوں اور مقامی سیاسی رہنماؤں میں غم و غصہ پیدا ہواہے۔الیکشن کمیشن آف انڈیا نے حال ہی میں ایسے لوگوں کو ووٹنگ کا حق دینے کے منصوبہ کا اعلان کیا ہے جو وہاں عارضی طور پر رہ رہے ہیں اوراس اقدام سے خطے میں تقریباً 2.5 ملین ووٹرز شامل ہوں گے، جن میں بھارتی فوجی اہلکار بھی شامل ہیں اس کے ساتھ انتخابی فہرستوں میں 30 فیصد اضافہ ہوگا۔بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے پاکستان کی سفارتی کوششوں کو مسترد کیاہے۔عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی، یکطرفہ اور اشتعال انگیز اقدامات کا فوری نوٹس لے اور اسے استصواب رائے پر مجبور کرے اور کشمیریوں کو ان کی خواہشات کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنےدیا جائے ۔