عالمی قوتوں کی تائیوان پر رسہ کشی

تحریر: نمرہ فلک ۔۔۔۔
نسل نو کو جس کشمکش کا سامنا ہے وہ، ما ضی میں شاید عالمی جنگوں کے وقت موجود لوگوں کو رہا ہوگا ۔ چاہے کرونا جیسی مہلک وبا ء ہو یا بے روزگاری، عالمی مہنگائی ہو یا ناگفتہ بہ عالمی و ملکی سیاسی حالات،کمزور معیشت ہو یا سیلاب و طوفانی بارشیں مزید افتاد ،عالمی طاقتوں کے مابین جاری جنگیں ہیں جو نئے سرے سے سر اٹھا رہی ہیں۔ پاکستان جیسی کمزور معیشت والے ممالک جن کی عوام پستی سے پستی کی طرف جارہی ہے،وہ ابھی عالمی منظر نامے میں ہونے والی روس اور یوکرین کی جنگ سے سنبھالا بھی نہیں لے پائے تھے کہ دنیا کی سپر پاور ،نام نہاد امن کی ٹھیکیدار ریاست نے ایک نیا محاذ کھول دیا، وہ یوں کہ اگست کے اوائل میں امریکن ایوان نمائندہ گان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے دورہ تائیوان کیا جس نے عالمی ماحول میں کشیدگی کو مزید گرما دیا۔ تائیوان جو ماضی میں چائنا کا حصہ رہاہے اور عالمی قوانین کے تحت بھی ون چائنا پالیسی میں قانونی طور پر چائنا کا ہی حصہ ہے۔ چونکہ دہائیوں قبل جب چین میں چینی مارکسی راہنماء ماؤ زے تنگ اور قوم پرست چینی لیڈر چیانگ کائی شیک کے درمیان حقوق کی جنگ ہوئی تھی تو اس وقت چیانگ کائی شیک اپنے پیروکاروں کے ساتھ تائیوان کے جزیر ے پر منتقل ہوگیا تھا ۔
اس وقت یہ جزیرہ خود مختار ہوگیا تھا لیکن بہرحال عالمی قوانین کے تحت تا حال یہ چائنا کا ہی حصہ ہے ایسے میں امریکن ہائی اتھورٹیز کا تائیوان کو خود مختار ریاست گردانتے ہوئے وہاں کا دورہ کرنا لازما چائنا کے اشتعال کو ہوا دینا ہے ۔ چونکہ امریکہ چائنا کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار سے خائف نظر آتا ہے لہذا اسکو ایک نئی الجھن میں جنگ کی صورت میں الجھانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے ۔ امریکہ تو اپنی چال چل چکا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ چائنا کی جانب سے اس کا کیسا رد عمل آتا ہے ۔بظاہر تو تائیوان کے اردگر د تیز و تند فوجی مشقیں اور امریکا کو آگ سے نہ کھیلنے کے جیسے بیانات سامنے آئے ہیں لیکن فقط کیا یہ بیانات ،بیانات ہی رہیں گے ؟ یا چائنا جو اپنی معتدل پالیسز کی وجہ سے معروف ہے کیا اب وہ کوئی جارحانہ قدم اٹھائے گا ؟
یہاں چائنا کی آئندہ حکمت عملی کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ثابت ہوگا کیونکہ اس کی ماضی کی پالیسیاں بہت مصالحت پسندانہ رہی ہیں مزید یہ کے وہ اس بات کا بھی اچھی طرح سے ادراک رکھتا ہے کہ کس طرح امریکہ، محض تائیوان پر چائنا کے قبضے کو روس کا یوکرین پر قبضے کی طرح کا رنگ دے کر اس پر عالمی برادری سے بھاری معاشی و تجارتی پابندیاں عائد کروا سکتا ہے جس طرح حال میں ہی روس پر عائد کروائی ہیں ،جبکہ چائنا وہ ریاست ہے جو سرحدی تنازعات کے باوجود بھی اپنی معیشت کو نقصان پہنچانے کی قائل نہیں ہے جیسے کے بھارت سے سرحدی تنازعات کے باوجود بھی دونوں ریاستوں کے مابین ریکارڈ تجارت جاری ہے ۔ اپنی بڑھتی ہوئی معیشت کو کبھی بھی وہ جنگ کی آگ میں نہیں جھونکے گا ۔
لیکن یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ اگر اس نے فقط بیانات سے کام لیا تو یہ ا س کی سالمیت کے لیے خطرہ ثابت ہوگا کیونکہ ایسے میں تائیوان مزید جنگی قوت حاصل کر لے گا اور امریکہ و مغربی ریاستیں اس کو تقویت دینے کے لیے ہر طریقہ اختیار کرئیں گی جب کہ چائنا کے محض بیانات سے اس کا عالمی سطح پر مورال بلکل گر جائے گا کہ کس طرح ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہونے کے باوجود امریکہ کے آگے بے بس و ناکام رہی ، جبکہ چائنا کی اتحادی ریاستیں بھی پھر اس کو کسی بھی طرح اپنے قوی و مضبوط اتحادی کے طور پر نہیں دیکھیں گی اور عالمی ریاستی اصول ، قومی مفاد کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ اتحاد کر لیں گی جس سے امریکہ ” کنٹینٹمٹ آف چائنا ” کی پالیسی کو احسن انداز میں پورا کر لےگا ۔ چونکہ ماضی میں اس ہی طرح روس کے سامنے امریکہ نے اپنے اتحادی یوکرین کو مضبوط کر کے کھڑا کیا ۔ لہذا ہر گزرتے وقت کے ساتھ چائنا کے خلاف تائیوان کی مزاحمت اور بڑھے گی ۔ اس بات کااندازہ یہاں سے کریں کہ جب روس نے چھوٹے سے ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا تو لگتا تھا کہ یہ محض کچھ ہی دنوں میں ڈھیر ہو جائےگا لیکن یہ صرف ایک غلط اندازہ ہی رہا اور آج اس جنگ کو لگ بھگ سات ماہ کا طویل عرصہ ہو چکا ہے ،جس میں یوکرین نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل اپنی سے کئی گنا بڑی ریاست کو “ٹف ٹائم” دیا ہے ۔ لہذا چائنا کا تائیوان کے معاملے کو طول دینا اس کے اپنے لیے خطرہ ہوسکتا ہے ۔
یقینا چائنا اس وقت مشکل ترین وقت میں ہے کہ آیا اس کو اپنی معاشی ترقی کو لگام دے کر اپنی ریاستی سالمیت کے لیے جنگ میں کودنا چاہیے یا نہیں ؟
لیکن فقط کچھ دیر کے لیے سوچیں زرا کیا ہماری یہ دنیا مزید کسی جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے ؟ ماحولیاتی تبدیلیاں ، عالمی وباؤیں ، عالمی تنازعات خواہ اسرائیل و فلسطین ہوں ، بھارت و کشمیر ہوں یا پھر روس و یوکرین ، دنیا اس وقت اپنے سخت ترین حالات سے گزر رہی ہے ۔ یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے کو خشک سالی کا سامنا ہے ، ترقی پذیر ممالک کو غذائی تنگی ، موسموں کی شدت نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔
جبکہ عالمی طاقتوں کے درمیان بگڑتے حالات پاکستان کے لیے بھی ایک نازک اور اہم موڑ ثابت ہو ں گے ۔ پاکستان جو کہ اپنی خارجہ پالیسی کو ہمیشہ عالمی طاقتوں کے مابین معتدل رکھنے کی کاوششوں میں سرگرداں رہا ہے ، ان حالات میں چائنا ، جو کے اسکا پرانا اتحادی اور دوست ملک ہے جبکہ دوسری جانب دنیا کی سپر پاور ہے ، بہرحال جس سے اچھے تعلقات قائم کرنا ہماری مجبوری ہے لہذا اب پاکستان کو ان دونوں طاقتوں کے مابین اپنی خارجہ پالیسی کو اس طرح سے ترتیب دینا چاہئے کہ بلآخر ملکی وقومی مفاد ملحوظ رہے ۔ حالات اتنے سنگین ہو چکے ہیں کہ عالمی طاقتوں کے درمیان بہترین خارجہ پالیسی مرتب کرنے والی ریاست، بھارت بھی کشمکش کا شکار ہے مگر بہرحال وہ اب بھی اپنی متوازن خارجہ پالیسی قائم کیے ہوئے ہے لہذا وقتِ حاضرہ کا تقاضا ہے کہ ہر طرح کی آفات سے خواہ وہ قدرتی ہوں یا انسانی ،چونکنے ہو کر حکمت عملی مرتب کرنے کی ماضی سے کئی گنا زیادہ اب ضرورت ہے ۔