تحریکِ عدم اعتماد کیلئے عارضی طور پر رہا ہونے والے پی ٹی ایم کے علی وزیر دوبارہ گرفتار

تحریک عدم اعتماد میں ووٹ ڈالنے کے بعد علی وزیر کو دوبارہ گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا ہے۔ علی وزیر کو سپریم کورٹ کے خصوصی آرڈرز پر عارضی طور پر رہا کیا گیا تھا۔ اس کی دوبارہ گرفتاری پر پی ٹی ایم اور تمام سرخے جنرل باجوہ کے خلاف ٹرینڈ چلا رہے ہیں کہ ان کے حکم پر علی وزیر کو دوبارہ جیل بھیجا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ علی وزیر پر 5 کیسز ہیں جن کے تحت وہ پکڑا گیا تھا۔ ان میں سے صرف ایک میں سپریم کورٹ نے اس کی ضمانت منظور کی تھی لیکن وہ کیس بھی ختم نہیں کیا۔ باقی 4 کیسز میں ابھی تک کسی عدالت نے اس کی ضمانت منظور نہیں کی ہے۔ نہ سندھ حکومت یہ کوئی اور یہ کیسز واپس لے سکتا ہے۔ نہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون ہے نہ کہیں آئین میں ایسا درج ہے کہ کسی پر دہشتگردی وغیرہ کے کیسز بنیں تو وہ ایف آئی آرز بغیر کسی عدالتی ٹرائل کے کوئی حکومت ختم کر دے۔ اس کے لیے منظور پشتین نے کراچی میں دھرنا بھی دیا جس میں تین چار دن بعد اپنے نصف درجن ساتھیوں کے ساتھ مکھیاں مارتا نظر آیا۔ جب سپریم کورٹ نے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈرز جاری کروائے تو انہوں نے بھی اللہ کا شکر ادا کر کے جلدی جلدی اپنا دھرنا سمیٹا۔ اب شائد دوبارہ وہاں بیٹھنے کی ہمت نہیں۔ ویسے سابق پی ٹی ایم راہنما محسن داؤڑ حکومت کا حصہ ہیں۔ اس سے گلہ کیوں نہیں کرتے؟ علی وزیر کے خلاف سندھ حکومت نے کیس بنایا ہے اور محسن داؤڑ کو بلاؤل بھٹو نے حکومت میں شامل کیا ہے۔ اس سے یہ شکایت کیوں نہیں کرتے؟ سنا ہے محسن داؤڑ نے اپنا ووٹ بیچنے کے ساتھ ساتھ علی وزیر کے ووٹ کے عوض بھی کروڑوں روپے وصول کیے ہیں۔ لگے ہاتھوں اس کا بھی حساب مانگ لیں۔ ویسے یہ سرخے ایک طرف کہتے ہیں کہ اگر کوئی مجرم ہے تو اس کو عدالتوں کے حوالے کیا جائے۔ دوسری طرف جب مجرموں کوعدالتوں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور ان کا ٹرائل ہورہا ہے تو یہ شور مچا رہے ہیں اور تمام مجرموں کو ماورائے عدالت رہا کیا جائے۔ پاکستان میں 51 ہزار قیدی بغیر سزا کے محض عدالتی ٹرائل کی وجہ سے جیلوں میں ہیں۔ اور اکثریت معمولی نوعیت کے جرائم میں۔ کیا وہ انسان نہیں ہیں؟ ان کے کوئی حقوق نہیں؟ جب ان کو عدالتیں نہیں چھوڑ رہیں تو ان سرخوں کو کون سا سرخاب کا پر لگا ہے کہ ان کو رہا کر دیا جائے