پشتو ادب کے عظیم شاعر غنی خان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے تقریب کا انعقاد

پشاور: پشتو ادب کے عظیم شاعر و مصور غنی خان کی پشتو ادب، فلسفہ، مجسمہ سازی اوران کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے زیراہتمام پشکلاوتی میوزیم غنی خان ڈھیری چارسدہ میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں خیبرپختونخوا کے معروف شاعرو پروفیسر اباسین یوسفزئی، تاریخ دان پروفیسر ڈاکٹر وقار علی شاہ، ڈاکٹر سمیع الدین، ڈاکٹرامین تنہا، کلثوم زیب، ڈاکٹر فرہندہ حیات، منیجر کلچر و انفارمیشن ٹورازم اتھارٹی ہمایون خان ،فیاض مشال، اقبال حسین افکار، فیاض خان خیشگی، روحان یوسفزئی، بحرام خان، پروفیسر ڈاکٹر یار محمد مغموم، ڈپٹی منیجر میڈیا ذیشان مجید، طلبہ، عمائدین علاقہ سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اباسین یوسفزئی نے کہاکہ غنی خان پشتو ادب کے عظیم شاعر ہونے کیساتھ ساتھ فلسفہ، مجمسہ سازی اور فن کا سمندر تھے ۔ غنی خان کو مصوری کی حیثیت سے پوری دنیا جانتی ہے ۔ تقریب کا مقصد آنے والی نسل کو غنی خان کی ادب، مصوری، فلسفہ اورسمیت دیگر شعبوں میں خدمات کو اجاگر کرنا ہے ۔غنی خان نے برطانوی سامراج کی مخالفت کرتے ہوئے سخت قیدو بند کی صعوبتیں جھیلیں اور چٹان کی طرح کھڑے رہے اور اپنے لوگوں میں آزادی کا شعور بیدار کرنے کیلئے قلم کی طاقت کا استعمال کیا۔پروفیسر ڈاکٹر علی وقار علی شاہ نے غنی خان کی خدمات پر نظر ڈالتے ہوئے کہاکہ جنہوں نے خدائی خدمتگار، خیبرپختونخوا کی سیاست اور باچا خان پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ کثیر جہتی شخصیت کے مالک تھے۔ڈاکٹر وقار نے مزید کہا کہ غنی خان کی شاعری رومانیت، قوم پرستی، انسان پرستی اور سماجی معاہدے کے نظریہ کے خلاف شدید دشمنی سے بھری ہوئی ہے۔ غنی کی کتاب دلچسپ کہانیوں اور لوک گیتوں سے بھری ہوئی ہے، پختونوں کی زندگی کے تقریباً ہر اہم پہلو پر روشنی ڈالنا۔بقول ڈاکٹر وقار غنی خان کی کتاب آج بھی انگریزی زبان میں نفسیاتی، سماجی، پختونوں کی ثقافتی اور سیاسی زندگی غنی خان نے سادہ زبان، عام فقرے استعمال کیے، لیکن ان کا بیانیہ اپنی نسل کی کہانی سناتے ہوئے بہت طاقتور تھا۔ تقریب کے اختتام پر فنکارفیاض خیشگی اورمعیز الدین نے غنی خان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ان کی نظمیں گائیں۔