سرد عالمی ماحول، روس پاک گرمجوشی

تحریر: نمرہ فلک ۔۔۔۔۔
موجودہ حالات میں سرد جنگ اپنے عروج پر ہے ایسے میں ترقی پذیر ممالک کی فکر بجا ہے کہ وہ امریکن بلاک کا حصہ بنیں یا پھر چائنہ و روسی بلاک کا۔ ایسے حالات میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا خصوصی دورہ (گو کہ وہ روسی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی ایک بلاک کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور تمام ممالک سے تجارتی تعلقات چاہتے ہیں)، روس کے ساتھ تعلقات کی نئی ابتداء سمجھا جا رہا ہے اور ایسے میں روسی صدر ولادمیر پوٹن کا عین اس ہی دن یوکرین پر حملہ کرنا جس دن پاکستانی وزیراعظم عمران خان وہاں دورےپر موجود تھے ،پوٹن کے سازشی دماغ کا ایک ترت کا پتہ معلوم ہوتا ہے پھر انتہائی گرم جوشی سے استقبال اور ملاقات کا دورانیہ ایک گھنٹے سے بڑھا کر تین گھنٹے کر دینا امریکہ کی تشویش کو ہوا دیتا ہے جس کا اظہار ترجمان محکمہ خارجہ نیڈ پرائس پہلے ہی ان الفاظ میں کر چکے ہیں کہ ” پاکستان کوروس کے متعلق اپنی حیثیت واضح کرنا ہوگی”۔
روس سے تعلقات کا آغاز پاکستان کے لیے اس وقت قابل فکر اس لئے ہے کیونکہ مغرب مکمل طور پر روس کا مخالف ہوچکا ہے اور روس پر سنگین ترین تجارتی پابندیاں بھی عائد کر چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ بھی روسی جارحیت کی مذمت کر چکا ہے ایسے میں پاکستان کے روس سے گرم جوشی کے ساتھ بڑھتے تعلقات پاکستان کے لئے مغرب کی ناراضگی کی وجہ بن رہے ہیں
یوں تو مغرب ہمیشہ ہی پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا آیا ہے اور کبھی بھی اس کی قربانیوں کو سراہا نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان جوکہ آئی-ایم-ایف کا لگ بھگ 1,059 ملین ڈالر کا قرضدار ہے جو کہ مغرب کی ٹیکنالوجی پر ہی انحصار کرتا ہے جبکہ لاکھوں پاکستانی طلباء حصول تعلیم کے لئے ہر سال مغرب کا رخ کرتے ہیں
مزیدیہ کہ یورپ پاکستان کا دوسرا اہم ترین تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ 2020 کے تخمیے کے مطابق پاکستانی تجارت کے کل حجم کا 14.3 فیصد یورپ کے ساتھ رہا جبکہ دوسری جانب یہ مملک جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں لہذا پاکستان اپنا استحصال ہونے کی صورت میں ان پر تنقید کا حق بھی رکھتا ہے مگر ایسا وہ اپنے نئے پارٹنرز اور اپنے نئے ساتھیوں جیسے کہ چین وروس کہ ساتھ نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ اب ا مریکن ناراضگی کے اثرات بھی واضح ہونا شروع ہو چکے ہیں کیونکہ پاکستانی بینک پر امریکہ 55 ملین ڈالر جرمانہ عائد کر چکا ہے جس کی ادائیگی کیلئے پاکستان کو 1 ماہ کی مہلت دی گئی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کو آنے والے دونوں میں مزید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
بہرحال پاکستان سب ماضی کے بےاعتبار دوستوں سے ہاتھ چھڑا کر روس جیسے ملک کو نیا دوست ، چائنا کی وساطت سے بنانے جا رہا ہے مگر اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سفارتکاری کو بہت معتدل حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے اسوقت پاکستان کو ہرگز کسی سیاسی بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور اسے اپنی خارجہ پالیسی غیرجانبداری سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اب وقت بتائے گا کہ پاکستان کس طرح سے اپنی خارجہ پالیسی کو توازن میں رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے
گو کہ امریکا سے پاکستان کی دوری اور بھارت کی امریکا سے قربت کے نتیجے میں مشہور مقولہ “دشمن کا دشمن دوست “پاکستان، چین اور روس کے قریب آ رہا ہے جو کہ خطے میں بھارت جیسی جارح ریاست کی موجودگی میں توازن طاقت کے لیے بہتر ثابت ہو سکے گا.