فیس بک بھی جاسوسی کرنے لگا

لاہور :    فیس بک دنیا بھر میں استعمال ہونے والے انسانی روابط کی سائٹس میں سے آسان اور بہتر ذریعہ ہے مگر اب جس قسم کے الزامات کی زد میں یہ سوشل سائٹ آ چکی ہے اس کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔اطلاعات کے مطابق فیس بک بھی جاسوسی والے کام کرنے لگاہے، سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ نے تسلیم کیا ہے کہ صارفین کی گفتگو سنی ہے تاہم پیغامات سننے کا یہ سلسلہ اب رک گیا ہے جبکہ برطانیہ اور آئر لینڈ نے تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق فیس بک نے اس کے لیے باقاعدہ عملے کی خدمات حاصل کی تھیں۔فیس بک کے ترجمان کے مطابق ایپل اور گوگل کی طرح ہم نے کئی ہفتے پہلے صارفین کی وائس ریکارڈنگز (گفتگو) سننے کا عمل روک دیا ہے۔فیس بک چوتھی بڑی کمپنی ہے جس نے وائس ریکارڈنگ سننے کے لیے انسانی عملے کا استعمال کیا، اس سے پہلے صارفین یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی ریکارڈنگز کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے سنا جاتا ہے۔خبر رساں ادارے کے مطابق اپریل کو یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایمازون نے مصنوعات کے معیار سے متعلق جاننے کے لیے مشینوں کے بجائے انسانی عملے کا استعمال کیا۔دوسری طرف جولائی میں بیلجیم کے سرکاری ٹی وی نے انکشاف کیا تھا کہ گوگل بھی یہی کام کر رہا ہے، سرکاری ٹی وی وی آر ٹی کو گوگل کے کنٹریکٹر نے ایک ہزار سے زائد وائس ریکارڈنگز لیک کی تھیں۔ اس میں 15 فیصد سے زائد ریکارڈنگز حادثاتی طور پر بھیجی گئی تھیں جبکہ کچھ میں حساس نوعیت کے ذاتی پیغامات بھی تھے۔ایپل کے حوالے سے سے بھی یہ کہا گیا تھا کہ اس کا وائس اسسٹنٹ اس کا عملہ سنتا ہے تاہم ایپل نے کہا تھا کہ ان ریکارڈنگز کا ایک چھوٹا سا حصہ سنا جاتا ہے تاکہ سری اور ڈکٹیشن کی خدمات کو بہتر کیا جا سکے لیکن ایپل نے بھی ریکارڈنگز سننے کا یہ عمل روک دیا تھا۔برطانیہ میں کمشنر اطلاعات کے ترجمان کے مطابق تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا غیر اعلان شدہ انسانی عملے کے ذریعے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن کی خلاف ورزی تو نہیں کی گئی۔تاہم یہ پہلی بار نہیں ہے کہ فیس بک پر کوئی الزام لگا ہے۔اس سے قبل فیس ایپ نامی ایپلی کیشن کی وجہ سے بھی فیس بک کو مقدمات کا سامنا ہے جبکہ پہلے صارفین کا ڈیٹا بیچنے کے الزام میں بھی فیس بک ملین ڈالرز کا جمانہ ادا کر چکا ہے۔یہ بات طے ہے کہ صارفین کی پرائیویسی کے حوالے سے فیس بک اب قابل اعتماد نہیں رہا۔