دنیا افغان عوام کی غذائی ضروریات نظر انداز نہیں کرسکتی ، بروکنگز رپورٹ

اسلام آباد:دنیا افغان عوام کی غذائی ضروریات نظر انداز نہیں کرسکتی ، انسانی بحران اور معاشی تباہی سے بچنے کے لیے طالبان قیادت کے ساتھ روابط میں اضافہ کرے، افغانستان کو درپیش غذائی تحفظ کے بحران کی صورتحال میں امریکہ میں قائم تحقیقی ادارہ بروکنگزنے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ باضابطہ زرعی تعلیم میں اضافہ کیاجائے ،نصف سے زائد افغان آبادی کو جاری لڑائی ،کوویڈ19َََ اور شدید خشک سالی کی وجہ سے بھوک و افلاس کا سامناہے، بروکنگز شائع ہونے والے ننگیالائی اتل کے آرٹیکل کے مطابق زرعی پیداوار افغانستان کی مجموعی قومی پیداوار کا 23 فیصدہے، پالیسی سازوں میں افغانستان سے غربت کے خاتمہ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بارے میں بحث مباحثہ جاری ہے نوجوان خواتین اور لڑکیوں کی مہارتوں میں سرمایہ کاری افغان خوراک، معاشی تحفظ کے لیے ضروری ہے۔آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ زرعی شعبے کو ترقی دے کر 2024 تک معاشی خوشحالی میں 7.5 فیصد اضافہ کیا جاسکتا ہے۔یہ رپورٹ 300 سے زائد خواتین زرعی شعبہ کی طالبات، اساتذہ اور فیکلٹی کے ساتھ ساتھ ٹیکنکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ کے ڈائریکٹرز اور ماہرین کے ساتھ مباحثوں اور انٹرویوز پر مبنی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں خوراک اور اقتصادی تحفظ کے بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر، دنیا افغان عوام خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کی غذائی ضروریات کو نظر انداز نہیں کرسکتی ،پاکستان کا بھی دنیا سے مطالبہ ہے کہ وہ افغانستان کو نظر انداز نہ کرے بلکہ انسانی بحران اور معاشی تباہی سے بچنے کے لیے طالبان قیادت کے ساتھ روابط میں اضافہ کرے۔ افغانستان کے ساتھ دنیاکا رابطہ نہ رکھنے اور اس کے اثاثے منجمد کرنے سے افغانوں کو غربت، بھوک اور صحت کے مسائل سمیت خراب معیشت کا سامنا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوجوان خواتین اورلڑکیوں کی مہارتوں میں سرمایہ کاری افغاستان میں خوراک اورمعاشی تحفظ کے لیے ضروری ہے،علاوہ ازیں چار دہائیوں کی جنگ، سرد موسم، کووڈ 19 اور سابقہ ​​حکومتوں سے وابستہ طبی کارکنوں کا بڑے پیمانے پر اخراج بھی افغانستان میں انسانی بحران کے عوامل ہیں۔افغانستان کی زیادہ تر معیشت امداد پر مبنی ہے جہاں سابقہ حکومتوں نے بھی 75 فیصد سے زیادہ عوامی اخراجات کے لیے گرانٹ فنڈنگ ​​پر انحصار کیا،ایک اندازے کے مطابق 40 ملین افغانوں میں سے نصف کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔رپورٹ کے مطابق تقریباً 8.7 ملین لوگوں کو طویل مدتی اور مستقل امداد کی ضرورت ہوگی۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان کے سیاسی اور معاشی بحران پر فوری توجہ نہ دی گئی تو افغانستان کی تقریباً 97 فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے جا سکتی ہے۔پاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کی ہے اور افغان عوام کی مدد کے لیے افغانستان بین الا وزارتی رابطہ کمیٹی تشکیل دی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کے لیے 5 ارب روپے کی انسانی امداد کی منظوری دی ہے، وزیراعظم نے جنگ زدہ ملک کے لیے خصوصی چھوٹ دیتے ہوئے پاکستان کے راستہ بھارت کی جانب سے اعلان کردہ گندم کی امداد کی ٹرانسپورٹیشن کی بھی اجازت دی ہے اورپاک افغان کوآپریشن فورم بھی قائم کیا ہے جو افغانستان کی سہولت اور امداد کی فراہمی کے لیے فعال طور پر کام کررہا ہے۔پاکستان نے سرحد پار اشیاء کی فراہمی میں آسانی کے لیے پاک افغان سرحد کے ساتھ پانچ سرحدی تجارتی اسٹیشن کھولے جن میں طورخم، چمن، خرلاچی، غلام خان اور انگور اڈا شامل ہیں۔پی اے سی ایف نے کابل اور خوست میں آنکھوں کے مفت کیمپ لگائے جہاں پاکستانی ڈاکٹروں نے 530 موتیا کے آپریشن کیے اور 8120 مریضوں کا بغیر کسی معاوضے کے معائنہ کیا۔پاکستان نے 19 ستمبر 2021 سے 16 جنوری 2022 تک افغان عوام کے لیے انسانی امداد کے چار C-130 طیاروں اور 315 ٹرکوں کے ذریعہ مدد کی ۔ مجموعی طور پر 5605 ٹن وزنی امداد فراہم کی گئی ہے جس میں خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء شامل ہیں۔وزیر اعظم نےسرحد ی راستہ سے پاکستان میں داخل ہونے والے افغانوں کے لیے مفت کوویڈ 19 ویکسینیشن کی سہولت جاری رکھنے کا بھی حکم دیا ہے افغان مریضوں کو میڈیکل ویزا کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے اور پاکستانی حکام نے سرحد عبور کرنے کے لیے گیٹ پاس حاصل کرنے کی شرط ختم کر دی ہے اور پیدل چلنے والوں کی آمد و رفت کے لیےسرحد8 گھنٹے کی بجائے 12 گھنٹے تک کھلی رہے گی ،حکومت نے افغانوں کو جلد از جلد 50کروڑروپے کی ادویات فراہم کرنے کا ا بھی علان کیا ہے جبکہ نجی فارما انڈسٹری نے بھی چار کروڑ روپے مالیت کی ادویات کی اضافی امداد کا اعلان کیا ہے،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے افغانستان میں تعلیم کے فروغ، اساتذہ کی تربیت اور افغان انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے لیے افغانستان میں اپنا کیمپس کھولنے کا اعلان کیا ہے۔پاکستان نے افغان طلباء کے لیے 63 ملین ڈالر اور 3000 سکالر شپس اور 5000 ماہانہ وظیفے کی منظوری دی ہے۔علاوہ، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور نے افغان طلباء کے لیے ایک ذیلی کیمپس وقف کیا ہے جبکہ یونیورسٹی آف مینجمنٹ ٹیکنالوجی لاہور نے افغان طلباء کے لیے 100 وظائف اور اساتذہ اور محققین کے لیے پی ایچ ڈی میں 10 سکالر شپس کی بھی پیشکش کی ہے۔