ڈیورنڈ لائن کی حقیقت کیا ہے؟ افغان حکمرانوں نے کس طرح خیبر پختونخوا کے پشتونوں کے ساتھ غداری کی تھی؟

سال 1880 میں دوسری انگریز افغان جنگ میں کامیابی کے بعد برٹش انڈیا نے سرحدی علاقوں حدود کو طے کرنے اور افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کیلئے 1893 میں، اس وقت ہندوستان میں تعینات برطانوی سیکرٹری خارجہ سر مورٹیمر ڈیورنڈ کو کابل بھیجا۔ مورٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن خان کے درمیان 12 نومبر 1893 کو ڈیورنڈ لائن معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ اس وقت انگریزی میں لکھا گیا جس کی نقل دری میں ترجمہ کی گئی تھی۔1893 کے ڈیورنڈ لائن معاہدے کے بعد، شمال مغربی سرحد کے پشتون قبائل نے اپنے علاقوں میں انگریزوں کے خلاف بغاوت شروع کی۔ مالاکنڈ، مہمند، خیبر اور تیراہ میں شدید لڑائیاں ہوئیں۔ سواتی، دیروجی، مہمند، آفریدی، یوسفزئی، وزیر، اورکزئی اور دیگر پشتون قبائل نے برطانوی افواج پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں برطانوی افواج نے پشتونوں کی بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سی مہمات شروع کیں۔ برطانوی راج نے دعویٰ کیا کہ مورٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے امیر عبدالرحمان کے درمیان 1893 کے ڈیورنڈ لائن معاہدے کے بعد شمال مغربی سرحد کے علاقے اب برٹش راج کے کنٹرول میں ہیں۔ جب کہ پشتونوں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا اور تسلیم نہیں کیا کہ وہ برطانوی راج کے تحت رہیں گے۔

ڈیورنڈ لائن معاہدہ خیبر پختونخوا کے پشتونوں کے ساتھ افغان حکمرانوں کی پہلی غداری تھی جب افغان حکمرانوں نے اس وقت خیبر پختونخوا کے پشتونوں کو برطانوی فوجیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا تھا جب کہ اس معاہدے کے وقت پشتونوں سے اس کی مرضی بھی نہیں پوچھی گئی تھی۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد 08 اگست 1919 کو برٹش انڈیا اور افغانستان کے درمیان باضابطہ طور پر “ڈیورنڈ لائن معاہدہ” یا “اینگلو افغان معاہدہ 1919” طے پایا گیا، جس پر افغانستان کے حکمران امیر امان اللہ خان نے دستخط کئے اور موجودہ خیبرپختونخوا کے پشتونوں کو ان کی رضامندی، حتی کہ ان کو خبردار کئے بغیر اس پورے خطے کو برٹش انڈیا کے حوالے کردیا۔ یہ وہ دن تھا جب افغانستان کے حکمرانوں نے ڈیورنڈ لائن کو ایک انٹرنیشنل بارڈر کے طور پر تسلیم کیا تھا اور خیبر پختونخوا کو برٹش انڈیا کے خوالے کی گیا اور کہا گیا کہ موجودہ خیبر پختونخوا، جس کو اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ کہا تھا جاتا تھا، کو رکھ لو لیکن درہ خیبر کو عبور مت کرنا اور اسطرح افغانستان ایک آزاد ملک قرار دیا گیا۔ اور یہی وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے جب برصغیر پاک و ہند تقسیم ہو رہا تھا تو خیبرپختونخوا کے پشتونوں نے ریفرنڈم میں پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان لوگوں کو 1893 اور 1919 میں افغانستان کے حکمرانوں کی دھوکہ دہی یاد تھی۔ لیکن آج کچھ شرپسند عناصر پاک افغان بارڈر (ڈیورنڈ لائن) پر پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا (اٹک تک) افغانستان کا حصہ ہے لیکن جھوٹا دعوی کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ افغانستان وہی ریاست ہے جس کے حکمرانوں نے ہمیں سو سال پہلے انگریزوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بیجا تھا اور پاک افغان بارڈر (ڈیورنڈ لائن) کا ایک بین الاقوامی بارڈر کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ ڈیورنڈ لائن ایک بین الاقوامی بارڈر جسے پوری دنیا تسلیم کرتے ہیں اور یہ بارڈر کسی اور نے بھی بلکہ برطانیہ نے خود طے کیا ہے۔ اگر ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے افغانستان اور چند شرپسندوں کا موقف ٹھیک ہوتا تو آج تک افغانستان نے کسی بین الاقوامی سطح پر اس مسلے کو اجاگر کرنے کیلئے کوشش کیوں نہیں کی؟شرپسند عناصر کے اس پروپیگنڈوں کو نہ صرف پشتونوں نے رد کیا بلکہ پشتون تاریخ دان اور پاکستان افغانستان امور کے ماہروں نے بھی ایسے بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈوں کو رد کیا ہے۔

پاک افغان امور کے ماہر اور سینئیر صحافی مرحوم رحیم اللہ یوسفزئی نے وفات سے پہلے اپنی آخری انٹرویو میں ڈیورنڈ لائن کے حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب ڈیورنڈ لائن بن رہا تھا تب “یہاں پر انگریز کی حکومت تھی، اور وہ مانتے ہیں کہ یہ (ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی) بارڈر ہے۔ حتی کہ یہ بارڈر ہی سفارت کار ڈیورنڈ نے خود بنائی تھی۔ اور دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں جو افغانستان کے اس موقف کو مانے۔ اگر افغانستان کا یہ مؤقف درست ہوتا، تو وہ اس کو یو این (اقوام متحدہ) لے کر جاتے۔ افغانستان اس مسلے کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس لے کر جاتے وہاں بھی نہین لے کر گئے۔ افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کا مسلے کسی بھی بین الاقوامی ادارے لے کر نہیں گئے کیوں سب اس بات کو جاتے ہیں کہ افغانستان کا یہ موقف کمزور ہے اور پاکستان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن ایک بین الاقوامی بارڈر ہے۔

“پاکستان کے مشہور تاریخ دان جمعہ خان صوفی نے کانسپٹ ٹی وی کے ایک پروگرام سپینی خبری میں ڈیورنڈ لائن کے بارے میں واضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “ڈیورنڈ لائن افغان حکمرانوں کی بنائی ہوئی ایک بین الاقوامی لکھیر (بارڈر) ہے۔ جس کو افغان حکمرانوں نے بنایا ہے۔ ہم نے یہ بارڈر نہیں بنایا، ہمایوں عبدالرحمان کی خواہش پر بنا ہے۔ امیر امان اللہ خان نے ایسے ایک انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کیا ہے۔”ان تمام تر حقائق سے نہ صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہاں ڈیورنڈ لائن ایک بین الاقوامی بارڈر ہے جیسے افغانستان نے حکمرانوں نے خود تسلیم کیا ہے بلکہ ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ افغانستان کے حکمرانوں نے ہم پاکستانی پشتونوں کے ساتھی کتنی بار غداری کی ہے اور اب چند شرپسند عناصر ہمارے نوجوان نسل کو جھوٹے دعووں اور پروپیگنڈوں سے گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔