بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام میں بھی بہتری کے لیے عملی اقدامات

اسلام آباد : موجودہ حکومت نے توانائی کے شعبہ کی بہتری ،گردشی قرضے کے خاتمے، بجلی چوری کی روک تھام، پیداوار اور واجبات کی وصولی میں اضافہ کے لئے جامع حکمت عملی پر عملدرآمد تیز کردیا ہے ، توانائی کے بحران کے خاتمے، بجلی چوری کی روک تھام اور واجبات کی وصولی کے لئے بھرپور مہم چلائی جارہی ہے، بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام میں بھی بہتری کے لیے عملی اقدامات کئے گئے ہیں، بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز (لائن لاسز) میں 0.86فیصد کمی ہوئی ہے، توانائی کے شعبہ کے محصولات میں گزشتہ تین ماہ کے دوران 40ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اب تک 20ہزار ایف آئی آر درج کر کے 2ہزار بجلی چوروں کو گرفتار کیا گیا ہے مختلف ترسیلی کمپنیوں کے 450سے زائد افسران اور عملہ کے ارکان کو بجلی چوری میں ملوث پائے جانے پر ملازمتوں سے معطل کیا گیا ہے، لائن لاسز میں کمی کے لئے ٹرانسمیشن لائنوں کو اپ گریڈ بھی کیا جا رہا ہے ،اس اقدام سے وولٹیج میں کمی کا مسئلہ حل ہو گا اور محصولات میں اضافہ ہو گا، مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز ، تربیلا فور توسیع منصوبے سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور داسو پن بجلی منصوبے پر پیشرفت حکومت کی توانائی کے شعبہ کی ترجیحات کا عملی ثبوت ہیں، ملک میں سستی بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے نئی قابل تجدید توانائی پالیسی لائی جائے گی۔پاور ڈویژن کے ذرائع کے مطابق سابق حکومتِ کے دور میں ایک طرف مہنگی بجلی کی پیداوار اور دوسری جانب چوری اور بلوں کی عدم ادائیگیوں کے سبب گردشی قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ موجودہ حکومت کی طرف سے بجلی چوری کے خلاف مٴْہم، ریکوری اہداف، نادہندگان سے وصولیوں اور دیگر جامع انتظامی اقدامات کی وجہ سے اکتوبر 2018ء سے لے کر مئی 2019ء (8مہینوں) میں پچھلے سال یعنی اکتوبر2017ء سے مئی 2018ء کی نسبت 106ارب روپے کاریکارڈ اضافی ریونیو اکٹھا کیاگیا ہے۔106ارب اضافی ریونیو میں 74.37ارب صرف چوری، کرپشن اور نادہندگان کے خلاف جامع مہم کیوجہ سے اکٹھا کیا گیا ہے۔ ان آٹھ مہینوں میں کٴْل 705ارب روپے کا ریونیو اکٹھا کیا گیاہے جبکہ اس کی نسبت پچھلے سال کے آٹھ مہینوں میں یہ 598ارب روپے تھا۔یہ صرف چوری اور کرپشن کے خلاف مہم کو تیز کیا گیا ہے بلکہ ترسیلی اور تقسیم کار نظام میں بھی بہتری کے لئے عملی اقدامات کئے گئے ہیں۔ان اقدامات کیوجہ سے بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز (لائن لاسز) میں 0.86فیصد کمی ہوئی ہے اور یہ کم ہو کر 15.96فیصد پر آگئے ہیں۔ اکتوبر2017ء سے مئی 2018ء میں یہ لاسز 16.82فیصد تھے۔ موجودہ حکومت کے دور میں نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی ( این ٹی ڈی سی) نے پورٹ قاسم ٹرانسمیشن لائن کو بہتر بنانے اور بجلی کی بلاتعطل ترسیل یقینی بنانے کا منصوبہ مکمل کیا ہے۔53 کلومیٹر طویل 500 کے وی کے ڈبل سرکٹ پورٹ قاسم ٹرانسمیشن لائن انسولیٹرز کی تنصیب سے بجلی کی ترسیل میں بہتری آئی ہے۔ 2018ء کے دوران واپڈا منصوبوں کی تکمیل سے پن بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 2 ہزار 487 میگاواٹ اضافہ ہوا۔ ملک میں پن بجلی کی پیداواری صلاحیت میں یہ اضافہ گولن گول، نیلم جہلم اور تربیلا کے چوتھے توسیعی منصوبے کی تکمیل سے ہوا۔پن بجلی پیداکرنے کی صلاحیت میں حالیہ اضافہ کے حوالہ سے پاکستان دٴْنیا بھر میں تیسرے نمبر پرہے۔ پاکستان میں پن بجلی کی پیداواری صلاحیت میں حالیہ اضافہ کے حوالے سے واپڈا نے سال 2018ء میں تیزی سے پیش رفت کرتے ہوئے 2 ہزار 487 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے تین میگا منصوبوں کو مکمل کیا، اِن منصوبوں میں گولن گول، تربیلا کا چوتھا توسیعی منصوبہ اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ شامل ہیں۔یہ تینوں منصوبے طویل عرصہ سے تاخیرکا شکار تھے۔ اِن منصوبوں کی تکمیل کی بدولت واپڈا کی پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں صرف ایک سال میں 36 فیصد اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 9 ہزار 389 میگاواٹ ہو گئی ہے۔پاکستان میں پانی سے بجلی پیداکرنے کا پوٹینشل 60ہزار میگاواٹ سے بھی زائد ہے۔ قلیل مدتی پلان کے تحت2025ء تک مختلف منصوبوں کی تعمیر سے پن بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 828 میگاواٹ، وسط مدتی پلان کے تحت 2030ء تک 5 ہزار 653 میگاواٹ جبکہ طویل مدتی پلان کے تحت 2050ء تک مزید 6 ہزار 245 میگاواٹ اضافہ کیا جائے گا۔رواں سال 2 جولائی کو ملک بھر میں بجلی کی ترسیل کا نظام خوش اسلوبی سے چلنے کے ساتھ قومی گرڈ میں بجلی کی فراہمی سب سے زیادہ 22550 میگاواٹ تک پہنچ گئی۔ موجودہ حکومت نے دسمبر 2019ء تک گردشی قرضوں میں 225ارب روپے کی کمی کے لئے ایک وسیع النظر پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت گردشی قرضوں کو 31دسمبر 2019ء تک 225ارب روپے تک لانا بھی شامل ہے جو اس وقت 600ارب روپے ہیں۔۔ موجودہ حکومت کی کوششوں سے توانائی کے شعبہ کے محصولات میں گزشتہ تین ماہ کے دوران 40ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کنڈا کلچر کا مکمل خاتمہ کیا جا رہا ہے جس کے لئے عوامی نمائندگی کی شمولیت کے لئے بجلی چوری کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم شروع کی گئی ہے۔ اندرون سندھ، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں بجلی چوری کے خلاف خصوصی مہم شروع کی گئی ہے۔اب تک 20ہزار ایف آئی آر درج کر کے 2ہزار بجلی چوروں کو گرفتار کیا گیا ہے اور بجلی چوروں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔ بجلی چوری کی لعنت کے خاتمے کے لئے رات کے اوقات میں چھاپے بھی مارے جا رہے ہیں، مختلف ترسیلی کمپنیوں کے 450سے زائد افسران اور عملہ کے ارکان کو بجلی چوری میں ملوث پائے جانے پر ملازمتوں سے معطل کیا گیا ہے۔ لائن لاسز میں کمی کے لئے ڈیسکوز کی طرف سے سرمایہ کاری پلان کے تحت ٹرانسمیشن لائنوں کی لمبائی کو کم کرنے کا کام سونپا گیا ہے جس کے تحت مختلف فیڈرز کی لائنیں 20سے 25کلومیٹر کم کی جائیں گی۔اس اقدام سے وولٹیج میں کمی کی شکایت بھی دور ہو گی اور محصولات میں اضافہ ہو گا۔ ٹرانسمیشن لائنوں کو اپ گریڈ بھی کیا جا رہا ہے، ملک میں 8لاکھ 40ہزار ٹرانسفارمرز ہیں اور ہر ٹرانسفارمر کے ساتھ میٹر نصب کرنے کے لئے ورلڈ بینک کے ساتھ بات چیت کی گئی ہے۔ اس سے لائن لاسز میں کمی آئے گی اور ریونیو بڑھیں گے۔ حکومت نے ملک میں سستی بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے قابل تجدید وسائل پر انحصار بڑھانے کی حکمت عملی کے تحت نئی قابل تجدید توانائی پالیسی پرکام تیز کردیا ہے اس وقت ملک میں انرجی مکس کا زیادہ تر حصہ مہنگے ایندھن پر مشتمل ہے جسے سستے ایندھن پر مشتمل کرنے کیلئے کام کیا جارہا ہے۔اس سلسلے میں 2025ء تک حکومت 10 ہزار میگاواٹ بجلی اور2030ء تک18 ہزار میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کرے گی جس سے 2025ء تک قابل تجدید توانائی کا انرجی مکس میں حصہ 20 فیصد اور2030ء تک 30 فیصد ہوجائے گا ۔، تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو ان کے مختلف علاقوں کیلئے مخصوص نیٹ میٹرنگ کے فروغ کے اہداف دیئے گئے ہیں۔ ملک میں اب تک تقریباً 900 میگاواٹ کی شمسی توانائی کی پلیٹس درآمد کی جا چکی ہیں جن میں سے اب تک صرف 26 میگاواٹ نیٹ میٹرنگ کے ذریعے سے نیشنل گرڈ میں شامل ہو سکا ہے، ان صارفین کی تعداد 1190 ہے۔جون 2020ء تک انسٹالڈ کپیسٹی 37527 میگاواٹ ہو جائے گی جبکہ 2020ء تک 2611 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ سالانہ پلان 2019-20ء کے مطابق سولر سے 100 میگاواٹ، ہائیڈل سے 197 میگاواٹ، درآمدی کوئلہ سے 660 میگاواٹ اور ایل این جی سے 1263 میگاواٹ، بیگاس سے 391 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر سولر سے 500 میگاواٹ، ہوا سے 1333.3 میگاواٹ، ہائیڈل سے 9670.25 میگاواٹ، مقامی کوئلہ سے 710 میگاواٹ، درآمدی کوئلہ سے 3960 میگاواٹ، گیس سے 6569 میگاواٹ، آر ایل این جی سے 4914 میگاواٹ، آئل سے 7635 میگاواٹ، بیگاس سے 890.5 میگاواٹ، نیوکلیئر سے 1345 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔سینٹرل ایشیا سائوتھ ایشیا (کاسا) پراجیکٹ کے لئے پی ایس ڈی پی 2019-20ء میں 6484 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کاسا پراجیکٹ 2019-20ء میں جاری رہے گا۔ ملک میں اس وقت بجلی کی کل پیداوار 34916 میگاواٹ ہے جس میں سے 9463 میگاواٹ ہائیڈل، 7635 آئل، 6569 گیس جبکہ 3651 میگاواٹ آر ایل این جی سے حاصل ہو رہی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں اس وقت 400 میگاواٹ سولر، 1333 میگاواٹ ونڈ، مقامی کوئلہ سے 710 میگاواٹ، درآمدی کوئلہ سے 3300، گیس سے 6569، آر ایل این جی 3651، آئل 7635، کوڑا کرکٹ 499 اور نیوکلیئر سے 1345 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے جبکہ جون 2018ء میں بجلی کی کل پیداوار 32263 میگاواٹ تھی جس میں سب سے زیادہ 8683 میگاواٹ بجلی ہائیڈل سے پیدا کی جا رہی ہے 25 جولائی کوچوتھے توسیعی پن بجلی منصوبے نے ایک اور اہم کامیابی حاصل کر تے ہوئے 1410میگاواٹ بجلی پیدا کی۔بجلی کی یہ پیداوار پاور پلانٹ کے اعلیٰ معیار، تربیلا ڈیم میں پانی کی بلند سطح اور دریائی پانی کے بہاؤ میں اضافہ کی بدولت حاصل ہوئی۔ تربیلا کے چوتھے توسیعی منصوبے کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے واپڈا کا فلیگ شپ منصوبہ قرار دیا ہے۔ فروری 2018ء میں پہلے یونٹ کی تکمیل پر اِس منصوبہ سے بجلی کی پیداوار کا آغاز ہوا جبکہ دوسرا اور تیسرا یونٹ 2018 ئ کے وسط تک مرحلہ وار مکمل کئے گئے۔اپنی تکمیل سے اب تک تربیلا چوتھا توسیعی منصوبہ نیشنل گرڈ کو 3ارب 14کروڑ یونٹ کم لاگت بجلی فراہم کر چکا ہے۔ یہ منصوبہ قومی نظام کوہر سال اوسطاً3ارب 84کروڑ یونٹ بجلی فراہم کرے گا۔ منصوبے سے سالانہ آمدنی کا تخمینہ 30ارب روپے ہے۔ چوتھے توسیعی منصوبے کی تکمیل کے بعد تربیلا ہائیڈل پاور سٹیشن کی پیداواری صلاحیت3 ہزار 478 میگاواٹ سے بڑھ کر 4 ہزار 888میگاواٹ ہوگئی ہے۔موجودہ حکومت مے مہمند ڈیم پن بجلی منصوبے پر کام عملی طور پر آغاز کیا ہے اور منصوبہ 2024 ء تک مکمل ہو جائے گا۔ پی سی ون کے تحت اس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 291 ارب روپے ہے اور اس کی تکمیل پر پانچ سال لگیں گے۔ مہمند ڈیم کی تکمیل سے علاقے میں 12 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی کو سیراب کیا جاسکے گا جبکہ اس سے 800 میگاواٹ سستی بجلی پیدا ہوگی۔ مہمند ڈیم منصوبہ تربیلا اور منگلا کے بعد ملک میں پن بجلی کی پیداوار کا تیسرا بڑا منصوبہ ہے جسے بروقت مکمل کرنے کے لئے حکومت نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔حکومت نے بجلی کی پیداوار تقسیم اور ترسیل کے نظام میں سرمایہ کاری بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کے لئے سہولیات اور مراعات فراہم کی جائیں گی۔ بجلی کی پیدوار کے شعبے میں 40 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری اور تقسیم کے نظام میں 15 سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گنجائش موجود ہے ،حبکو اورکاسا 1000 منصوبے کے تحت بجلی کے حصول کے لئے تاجکستان اور پاکستان کے درمیان ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کیلئے رواں مالی سال کے دوران7 ارب 87 کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ کئے جائیں گے ،اس منصوبے سے نہ صرف وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیاں علاقائی روابط کو فروغ ملے گا بلکہ توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے گا،حکومت لائن لاسز میں کمی کے لئی بھی جامع اقدامات کر رہی ہے۔تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو لائن لاسز میں کمی لانے کے لئے خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ پاور ڈویژن اور پیپکو کے افسران اس سلسلہ میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو دیئے جانے والے والے اہداف کا ہفتہ وار بنیاد پر جائزہ لیں گے لائن لاسز میں اضافے اور ہدف پورا نہ کرنے کی صورت میں متعلقہ ایس ای، ایکسیئن اور ایس ڈی اوز کے خلاف تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔