دفاع

تحریر: ڈاکٹر اقرا عباسی ۔۔۔۔
دفاع کو اگر آسان لفظ میں سمجھا جاۓ تو اس کے معنی ہے “بچاؤ” اب آپ اپنے ملک کو اُس کے غداروں سے بچائیں یا اپنے آپ کو اپنے دشمنوں سے یا پھر اپنے نفس کا دفاع گناہوں سے کریں. ان میں سے کسی ایک کا بھی دفاع کرنا بے حد مشکل ہے.
اپنے ملک کے غداروں سے دفاع کے لیے آپ کو اپنی جان کا خطرہ لینا ہو گا۔
اور اپنے دشمن سے دفاع کے لیے بھی ہو سکتا ہے آپ کو بہت کچھ کھونا پڑ جاۓ۔
اور رہی بات نفس کی تو اس کا گناہوں سے دفاع بے حد مشکل ہے لیکن یاد رہے کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
اسی طرح مشکلات کا زندگی میں آنا عام بات ہے اور اس کا دفاع زندگی جینے کا مقصد۔
آج کل کے دور میں ہمیں سب سے زیادہ اپنے ایمان کا دفاع کرنا چاہیے کہ جس طرح بے حیائی پھیلی ہوئی ہے ہمیں اپنے ایمان کو گناہوں سے بہت دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ہر کوئی گناہوں کی طرف بڑھے جا رہا ہے حالت سے مجبور ہو کر لوگ خودکشی کرتے چلے جا رہے ہیں ان کا دفاع بھلا کون کرے اب؟
ایسے مشکل وقت میں اپنا دفاع بھی مشکل ہو گیا ہے.
معاشرے میں پھیلی گندی چالیں اپنا بچاؤ کرنے کا بھی موقع نہیں دیتی.
ہمیں ہر حال میں کوشش کرنی چاہیے کبھی بھی مشکل کام کو دیکھ کر قدم پیچھے نہیں ہٹانا چاہیے اس طرح اپنے دفاع میں مشکل وقت آۓ تو اس کا سامنا کریں نا کہ ناامیدی کا رونا روئیں.