الیکٹرانک ووٹنگ مشین:انتخابات میں ووٹوں کی دھاندلی کو روکنے کا ایک قابل عمل حل

ایک آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات تمام اہل شہریوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے اور سیاسی حکومت کو ملک اور عوام کے مفاد میں فیصلے کرنے کا یکساں مواقع فراہم کرتے ہیں،انتخابات صرف اس وقت آزاد اور شفاف ہوتے ہیں جب اسٹیک ہولڈرز آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق کر سکیں کہ آیا انتخابی عمل درست، دیانتداری کے ساتھ انجام دیا گیا اور انتخابی نظام کے تمام مراحل سے متعلق معلومات شہریوں، ووٹرز، امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کیلئے قابل رسائی ہیں۔ان خیالات کا اظہار چیئرمین پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ جامعہ پشاور عبدالروف نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔عبدالراف نے کہا کہ ایک حقیقی جمہوری حکومت ہمیشہ عوام کی زبردست حمایت سے آزادانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے، جمہوریت اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب منتخب نمائندے عوام کے سامنے جوابدہ ہوں،انہیں آزادانہ اور شفاف انتخابی عمل کے بدولت نئے مینڈیٹ لینے کیلئے پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد ووٹروں کے پاس واپس آنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی حکومت جو دھاندلی اور فراڈ الیکشن کی بنیاد پر برسراقتدار آتی ہے اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور وہ مشکل سے اپنی آئینی مدت پوری کر پاتی ہے کیونکہ اس کے فیصلے بنیادی طور پر مفاد پر مبنی اور غیر مقبول ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک طویل تاریخ ہے جہاں ہارنے والی سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے جیتنے والی جماعتوں کے خلاف سنگین دھاندلی کی تحریکیں چلائیں جس کی وجہ سے اکثر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل، وسط مدتی انتخابات اور جمہوریت پٹری سے اتر گئی۔انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اس وقت گرا دیا گیا جب پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے)کے پلیٹ فارم سے مشترکہ اپوزیشن کی نو مذہبی سیاسی جماعتوں نے مارچ 1977کو ہونے والے عام انتخابات میں انتخابی دھاندلی اور منظم ووٹوں کی دھاندلی کا دعوی کرتے ہوئے عوامی تحریک شروع کی تھی۔انہوں نے کہا کہ پی این اے نے صرف 36نشستیں حاصل کرنے کے بعد احتجاجی تحریک شروع کی تھی اور پی پی پی نے155نشستوں کے ساتھ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کل 200 نشستوں میں سے ایک نشست مسلم لیگ (قیوم)نے جیتی اور آٹھ نشستیں آزاد امیدواروں نے حاصل کیں،1977کے الیکشن کے دوران پی پی پی کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کی سختی سے تردید کے باوجود، پی این اے کی ایجی ٹیشن تحریک نے بڑے پیمانے پر مظاہروں اور بھٹو مخالف پرتشدد مظاہروں کے بعد ملک میں فسادات اور بدامنی کو جنم دیا،سول سوسائٹی اور بار ایسوسی ایشنز بھی مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر آگئیں اوردھاندلی زدہ انتخابات کی پرزور مذمت کی گئی۔انہوں نے کہا کہ امن و امان کی خراب صورتحال اور فسادات نے ملک کی معیشت کو تقریبا 765ملین ڈالر کا نقصان پہنچایا جب کہ برآمدات میں35فیصد کمی واقع ہوئی، اس کے بعد5جولائی 1977کو ملک میں جمہوریت تیسری بار پٹڑی سے اتر گئی۔ڈاکٹر عبدالروف نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کی منتخب حکومتوں کو 1988-1999کے دوران ہونے والے انتخابات میں کرپشن، ناقص گورننس، بدانتظامی اور ایک دوسرے پر ووٹوں کی دھاندلی میں ملوث ہونے کے الزامات لگا کر برطرف کیا گیاجس کانتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ(ن)کی دو مرتبہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود کسی بھی منتخب وزیراعظم نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہیں کی،پی ٹی آئی نے2013کے انتخابات کے نتائج پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا تھا اور بیلٹ پیپرز کی جانچ پڑتال اور تصدیق کیلئے چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا ،پی ٹی آئی کی عوامی تحریک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو ووٹوں میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کا تین رکنی انکوائری کمیشن بنانے پر مجبور کیاگیا،23جولائی2015کو پاکستان کے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں کمیشن نے اعلان کیا کہ انتخابات بڑے پیمانے پر “منظم اور منصفانہ اور قانون کے مطابق ہوئے، کمیشن نے یہ بھی فیصلہ دیا تھا کہ پی ٹی آئی کی تحقیقات کی درخواست “مکمل طور پر غیر منصفانہ” نہیں تھی۔دھاندلی زدہ ووٹنگ سسٹم کو دفن کرنے اور2023میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کےلئے پی ٹی آئی کی زیرقیادت حکومت نے17نومبر2021 کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم)کے استعمال اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق دینے کی ایک تاریخی قانون سازی کی گئی۔سابق ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخواعیسی خان نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئینی طور پر2023کے انتخابات ای وی ایم کے ذریعے کرانے اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا پابند ہے۔انہوں نے کہا کہ2018کے انتخابات میں تقریبا 1.5ملین ووٹ مسترد کیے جانے کے بعد ای وی ایم کی ضرورت ہے،2008میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور 2015میں جوڈیشل کمیشن نے ان مشینوں کو جعلی اور غیر تصدیق شدہ ووٹوں کے غیر قانونی عمل کو ختم کرنے کی سفارش کی ۔انہوں نے کہا کہ90لا کھ سے زائد بیرون ملک مقیم پاکستانی30بلین ڈالر کی ترسیلات زرملک بھیج کرانتہائی داد کے مستحق ہیں لہذا حکومت کی جانب سے انہیں17نومبر2021کی تاریخی قانون سازی کے ذریعے انہیں ووٹ کا حق دینے سے نہ صرف ان کی عزت نفس اور پاکستان سے محبت بڑھے گی۔انہوں نے کہا کہ ای وی ایم کوئی نئی چیز نہیں ہے کیونکہ یہ انتخابات کے دوران ہندوستان، امریکہ، ایسٹونیا، برازیل، نمیبیا، فلپائن، ناروے، سوئٹزرلینڈ، منگولیا، کرغزستان، کینیڈا، بیلجیم، ایران، ارجنٹائن، ،بنگلہ دیش اور روس اورفرانس سمیت کئی ممالک میں استعمال ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی نے دنیا کو یکسر تبدیل کر دیا ہے اور انتخابات میں جدید ٹیکنالوجی کی موافقت ووٹنگ کے عمل کی شفافیت اور تیزی سے تکمیل کو یقینی بنائے گی، پولنگ کے عمل کو دھاندلی سے پاک بنانے کیلئے ای وی ایم اور آن لائن ووٹنگ پر جانے کا یہ صحیح وقت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تقریبا184ملین لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں اور120ملین رجسٹرڈ ووٹرز، جو آسانی سے ای وی ایم کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں،پارلیمنٹ کی جانب سے17نومبر کی تاریخی قانون سازی کے بعد، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ای وی ایمزکے اخراجات کا حساب کتاب کرنے، نئی قانون سازی کے مطابق اس کے موثر استعمال ،موجودہ قواعد و ضوابط میں ترمیم کرنے کیلئے تین کمیٹیاں تشکیل دی تھیں،ای سی پی نے ایک خط کے ذریعے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ تقریبا 8,00,000ای وی ایمز کی خریداری، اس کے ذخیرہ کرنے کیلئے ایک گودام، ڈیٹا اور کنٹرول سینٹرز کیلئے احاطے، جدید لیب، پرنٹنگ اور تربیت کیلئے فنڈز فراہم کرے۔ای سی پی نے ہاوسنگ اینڈ ورکس کی محکمہ سے کہا ہے کہ وہ ای وی ایم کیلئے کوہسار بلاک میں ایک عمارت اور دو منزلوں کی تعمیر کیلئے فوری اقدامات کرے۔ پلاننگ کمیشن سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اسلام آباد کے سیکٹر H-11میں مطلوبہ احاطے کی تعمیر کے لیے فوری طور پر فنڈز جاری کرے۔سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد نے بتایا کہ ای وی ایم اور سمندر پار پاکستانیوں کیلئے ووٹ کا حق ایک اہم قانون سازی ہے،2023کے انتخابات میں کچھ حلقوں میں زیادہ تر بڑے شہروں میں ای وی ایم تجرباتی بنیادوں پر استعمال کیے جانے کا امکان ہے۔انہوں نے کہاکہ ای وی ایم کافی سالوں کے بعد ہندوستان میں کامیاب رہی ہے اور پاکستان میں مکمل طور پر کام اور کامیاب ہونے میں وقت لگے گا۔کنور دلشاد نے کہا کہ پورے مینوئل ووٹنگ سسٹم کو ڈیجیٹل ووٹنگ کے طریقہ کار سے تبدیل کرنے،800,000سے زائد ای وی ایمز کی خریداری، بائیو میٹرک تصدیقی مشینوں یا سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم کیلئے تقریبا دو ٹریلین روپے درکار ہوں گے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ بیلٹ پیپرز اور ووٹرز کی رازداری، ای وی ایم/انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم کے سافٹ ویئر کی ہیکنگ اور چھیڑ چھاڑ سے متعلق ای سی پی کے تمام خدشات کو دور کیا جائے گا اور ای وی ایم کے آپریشن کیلئے الیکشن کمیشن کے تمام مالیاتی مطالبات کو پورا کیا جائے گا، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق کے حوالے سے خیبرپختونخوا کے وزیر برائے اطلاعات و اعلی تعلیم کامران بنگش نے کہا کہ ای وی ایم اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق موجودہ حکومت کی طرف سے لائی گئی ایک حقیقی مثبت تبدیلی ہےاور وزیر اعظم عمران خان کا سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ کیا گیا ایک اور وعدہ پورا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ای وی ایم کی قانون سازی نے دھاندلی زدہ ووٹنگ سسٹم کو ختم کر دیا ہے اور اب کوئی بھی انتخابی نتائج پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔