تہذیب کا معیار

تحریر: یاسر خان بلوچ ۔۔۔۔
ہم خود کو بڑی مہذب قوم سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ہم یورپ سے 100 گنا بہتر اور مہذب ہیں۔ ہمارے مطابق پورا لباس پہننا اور زیادہ ڈگریاں حاصل کرلینا ہی مہذب ہونے کی علامت ہے حالانکہ پورا لباس پہننے سے کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ میں مہذب ہوں کیونکہ مہذب ہونے کا تعلق لباس سے نہیں بلکہ آپ کے اندر کے انسان اور ایمان کے ساتھ ہے۔
آج کے تمام ترقی یافتہ ممالک غیر مسلم ہیں۔کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہم مسلمان ہو کر پستی کا شکار ہیں اور وہ کافر ہو کر عروج کے مزے لے رہیں ہیں؟اس کا جواب آسان سا ہے کہ اسلام نے جو ہمارے لیے ترقی کا معیار چنا،جن اقدار و روایات کو فرض بنا کر ہم پر لازم کیا ہم نے ان کو چھوڑ دیا جبکہ غیر مسلم لوگوں نے ان ہی کو مضبوطی سے تھام لیا اور ساری دنیا پر راج کرنے لگے۔وہ اسلام اور اس کی تعلیمات سے انکار کرتے ہیں مگر اسلام کے ہی جاری کردہ معاشرتی اصولوں کو اپنا کر ترقی کی دوڑ میں آگے نکل چکے ہیں جبکہ ہم اپنے ہی دین اور اس کی تعلیمات کو چھوڑ کر زلیل و خوار ہو رہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا سے ہمارے ملک سے حج کرنے والوں کی تعداد زیادہ پوری دنیا میں 12 ربیع الاول کے جلوس ہمارے ہاں زیادہ اور محرم الحرام میں اتنا سوگ کہیں نہیں ہے جتنا پاکستان میں ہوتا۔ لیکن جب بات آئے ایمانداری کی تو ہمارے ملک 160 ویں نمبر پر ہے اور کافر ملک جاپان پہلے نمبر پر آئے۔ یہ ہیں ہم مسلمان؟
اور اگر بات آ جائے فحش ویڈیوز دیکھنے کی تو ہمارا ملک سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ ایسی ہوتی ہے مہذب قوم؟
دودھ میں پانی ملانے کو ہم جرم ہی نہیں سمجھتے میڈیکل سٹور پر دو نمبر ادویات رکھ کر غریب کو بیچنے پہ ہم کو کوئی ملال نہیں آتا اور بڑے ڈھیٹ ہو کر ہم لال مرچ میں اینٹیں رگڑ کر اسکا بورا شامل کر کے بیچتے ہیں۔ اور ہم اپنا مال بیچتے وقت ہرگز اس کی خامی نہیں بتاتے بلکہ اس کو چھپا کر عجیب سی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اگر ایسے ہوتے ہیں مہذب لوگ تو معاف کریں وہ غیر مہذب ہی اچھے ہیں۔اگر آپ باہر کسی اور ملک میں جائیں اور وہاں جاکر کہیں کسی دوکان والے کو کہیں کہ بھائی دودھ خالص دینا اس میں پانی ملا ہوا نہ ہو تو اسے سمجھ بھی نہیں آئے گی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں وہ اس بات سے ہی شاید بے خبر ہو کہ دودھ میں پانی بھی ملا کر بیچا جاتا ہے۔یا آپ وہاں کسی میڈیکل سٹور پہ جا کر کہیں کہ جناب مجھے ایک نمبر دوائی دینا تو وہ حیران ہو کر آپ کا منہ تکنے لگے گا کہ دوائی بھی دو نمبر ہوتی ہے؟کیا کوئی انسان اتنا گھٹیا بھی ہو سکتا ہے کہ دوائی کے نام پر دو نمبر چیز بنائے گا اور پھر انسانوں کو بیچے گا۔۔وہ دوائی جسے بچے اور بزرگ بھی استعمال کریں گے۔اگر آپ وہاں کسی سے کہیں کہ یار پورا ایک کلو گرام تولنا تو اسے بہت غصہ آئے گا کہ یہ مجھ پر الزام لگا رہا ہے۔ادھر یہ عالم ہے کہ گالی تو برداشت ہے مگر بے ایمان اور جھوٹا کہلوانا نہیں۔کیونکہ ان کے نزدیک یہ چیز گالی سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔ہم تو جھوٹ بول بول کر اور دونمبری کر کر کے اتنے عادی اور ڈھیٹ ہو چکے ہیں کہ اب یہ بات بری لگتی ہی نہیں۔لیکن پھر بھی ہم خود کو مہذب قوم کہلوانا چاہتے ہیں۔
یہاں ہر بندہ موقع کی تلاش میں ہے۔وہ اس تاک میں رہتا ہے کہ میرا نمبر کب آئے گا؟مجھے موقع کب ملے گا؟یہاں شریف وہی ہے جسے موقع نہیں ملا۔جیسے ہی موقع ملتا ہے چوری چکاری،فراڈ،دھوکہ دہی،ملاوٹ،کرپشن ہر ناجائز کام کرنے پہ آ جاتا ہے۔تب بڑے بڑے پارساؤں کے شرافت کے چولے اتر جاتے ہیں۔لیکن اگر دیکھا جائے تو ایسا انسان دوسروں کے ساتھ تو غلط کرتا ہی ہے مگر اپنی ذات کے ساتھ بھی منافقت کر رہا ہوتا ہے۔جو اپنے آپ کو دھوکہ دے کر اور اپنے ضمیر کو تھپکیاں دے دے کر سلاتے ہوئے اپنے ہی لیے جہنم کا کوئی گڑھا انگاروں سے بھر رہا ہوتا ہے۔دولت کی حرص میں مبتلا ہو کر شیطان کی آواز پر لبیک کہتا ہوا قہار کے قہر کو بھول جاتا ہے اور ہمیشہ کیلیے اندھیر راستوں کا مسافر بن جاتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنا اندر کنگھالے کہ ہم لوگ ایمانداری اور بے ایمانی کے کس مقام پر ہیں۔ایک معاشرے کو سدھارنے کیلیے جہاں اجتماعی حیثیت سے کام کرنے کی ضرورت ہے وہیں انفرادی طور پر اپنا احتساب کرنا بھی ضروری ہے۔جب ہر فرد اپنی کمی کوتاہی کو پرکھے گا اور سدھارنے کی کوشش کرے گا تو معاشرہ اپنے آپ سنورنے لگے گا اور ہم بھی خود کو مہذب قوم کہلانے کے حق دار بن سکیں گے۔