پی ٹی ایم،اے این پی اور این ڈی ایم ایک گاڑی کےپہیئے

تحریر:عبداللہ شاہ بغدادی ۔۔۔۔۔
پاک فوج کی مؤثر کارروائیوں کی بدولت ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی آچکی ہے جبکہ خیبر پختو نخوا کے قبائلی علاقوں میں بھی امن بحال ہو چکا ہے اور قبا ئلی اضلاع میں پاک فوج کے تعاون سے ان علاقوں کی تعمیروترقی اور بنیادی سہولیات کی لاتعداد منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ کئی پر اب بھی کام جاری ہے ،قبائلی اضلاع کی ترقی ملک دشمن عناصر کو ہضم نہیں ہورہا وہ مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کی تحریک پشتونوں کو حقوق دلانے کی نہیں بلکہ ان کے حقوق سلب کرنے کی تحریک ہے۔ اس تحریک کا مقصد قبا ئلی علاقوں سے پاک فوج کا انخلاء ، جاری تعمیر نو کے کام روکنا ہے تاکہ اس خطہ میں دوبارہ آگ اور خون کا کھیل شروع ہو جائے لیکن وہ اس میں ناکام ہوں گے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے نام پر پختونوں کو بدنام کیاجا رہا ہے ۔ یہ پشتون تحفظ موومنٹ نہیں بلکہ دشمن تحفظ موومنٹ ہے، پی ٹی ایم آئینی حقوق کے نام کی تحریک ہے لیکن اس کے جلسوں میں حقوق کا لفظ تک نہیں بس ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف اعلان جنگ کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں ایس پی رائو انوار کے ہاتھوں جب نوجوان نقیب اللہ محسود کا قتل ہوا تو تب بھی پی ٹی ایم نے اس واقعہ کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ناصرف سڑکوں پر آئے بلکہ اسلام آباد میں طویل دھرنا دے کر اسکے ایک خاص حصّے کو معطل کئے رکھا۔ پی ٹی ایم والے ہر پاکستان مخالف شخص سے ملتے ہیں اورجو فوج کی سپورٹ میں بولے وہ ماراجاتاہے،پی ٹی ایم نے جب اپنی تحریک کا آغاز کیا تو ابتدا میں اے این پی کے کئی کارکنوں نے ان کا ساتھ جو اے این پی کیلئے کسی خطرے سے کم نہیں تھا اور یہ افواہیں گردش کررہی تھی کہ اے این پی کا ساتھ دینے لگا،ایک انٹرویو میں اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے کہا کہ’پی ٹی ایم پاکستانی اداروں کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ پی ٹی ایم کو سپورٹ نہیں کرتے کیونکہ اے این پی نے عدم تشدد کی بات کی ہے اور اسی پر ہمارا اور پی ٹی ایم کے درمیان اختلاف ہے۔اس کے بعد اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’پی ٹی ایم پاکستانی اداروں کی سپورٹ سے چل رہی ہے اور یہی وجہ تھی کہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی ایم سے وابستہ محسن داوڑ اور علی وزیر وزیرستان سے کامیاب ہوئے تھے۔ اسی طرح اے این پی کے صدر ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی ایم کے ساتھ ان کے اختلافات اس وجہ سے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔جب سےپشتون تحفظ موومنٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور محسن داوڑ کی قیادت میں ایک نئی قوم پرست جماعت این ڈی ایم وجود میں آگئی تو اسی دن سے اے این پی بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی کیونکہ اے این پی سنئیر رہنما عبدا لطیف آفریدی ،افراسیاب خٹک، جمیلہ گیلانی، بشریٰ گوہر سمیت کئی قوم پرست رہنما محسن داوڑ کا حامی ہے،منظور پشتین اور محسن داوڑ کے راستے الگ ہونے اور این ڈی ایم کی وجود نے اے این پی کو کشمکش میں مبتلا کردیا،اے این پی نے پی ٹی ایم کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر علی وزیر کے حق میں ٹرینڈ چلایا،اے این پی کا موقف تھا کہ حکومت پشتونوں کو تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہے،اے این پی کاکہنا تھا کہ حکومت نے لاہور میں احتجاج کرنے والے کا لعدم تحریک لبیک پاکستان سے مذاکرات کئے جب کہ پشتونوں کو جیلوں میں پابند سلاسل کئے،اے این پی کے قائدین شاید بھول گئے ہے کہ وہ پاکستانی ہے اور ریاست پاکستان کی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں،اس سے صاف ظاہر ہوچکا ہے کہ اے این پی پاکستان سے مخلص نہیں وہ ملک میں انتشار پھیلانے والوں کا ساتھی ہے،اگر اے این پی باچہ خان بابا کے عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتا تو وہ ٹی ایل پی اور حکومتی مذاکرات کا حامی ہوتا،سوشل میڈیا پر اے این پی کی علی وزیر کی رہائی کے حوالے ٹرینڈ میں زیادہ تر سوشل میڈیا صارفین نے اپنے الگ الگ پیغامات میں لکھا کہ اے این پی ،این ڈی ایم اور پی ٹی ایم اپنے مقاصد کیلئے پشتون قام کو استعمال کررہے ہیں،اس کے علاوہ ان تینوں کا کوئی ایجنڈا نہیں۔