بھارت پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکا ہے، معید یوسف

اسلام آباد: وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ پڑوسی ممالک سے برتاﺅ کی وجہ سے بھارت پورے خطے کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے اور دنیا جتنی جلدی آنکھیں کھول لے گی انہیں اس کا اندازہ ہو جائے گا. اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ قومی سلامتی کے ہدف کا بنیادی مقصد پاکستانیوں کو زندگی گزارنے کے وسائل اور ذرائع فراہم کرنا ہے اور وہ خود کو محفوظ تصور کرے اور یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہماری تمام قیادت مستقل پاکستان کی سوچ کی جیو پولیٹیکل سے جیو اکنامک منظرنامے کی جانب منتقلی کی بات کرتی ہے جو دراصل ہماری سوچ میں تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ 70سال تک ہم یہ کہتے رہے کہ ہمارا جغرافیائی محل وقوع ہمارا سب سے اہم اسٹریٹیجک اثاثہ ہے لیکن ماضی میں اسی محل وقوع کی وجہ سے ہم عالمی جنگوں اور پراکسی جنگوں کے مرکز رہے ہیں اور گزشتہ 40سال سے افغانستان اس کی سب سے بہترین مثال ہے.انہوں نے کہا کہ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم اپنے اس جغرافیائی محل وقوع کو جیوپولیٹیکل سے جیو اکنامک محل وقوع کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں جس کے تین ستون ہیں جس میں پہلا کنیکٹیویٹی ہے، ہم جس جگہ بیٹھے ہیں وہاں سے ہم جنوب، شمال، مغربی دنیا اور مشرق سے خود کو مربوط رکھ سکتے ہیں اور پھر ہم اپنے اس محل وقوع کو استعمال کر سکتے ہیں. انہوں نے کہا کہ آپ نے وسط ایشیا کی جانب ہماری تیزی سے منتقلی کے عمل کا مشاہدہ کیا ہو گا، وزیر اعظم نے اس خطے میں تین سے چار اہم دورے بھی کیے ہیں کیونکہ وسط ایشیا گرم پانیوں سے ہوتا ہوا افغانستان کے ذریعے ہم سے منسلک ہوتا ہے جو وسط ایشیا کے لیے معاشی لحاظ سے سب سے موثر راستہ ہے.انہوں نے کہا کہ اسی طرح سی پیک بھی اہمیت کا حامل ہے اور اس کا مقصد چین کو ان کی عالمی تجارت کے لیے ہمارے گرم پانیوں سے منسلک کرنا ہے اور پاکستان ٹرانزٹ کا علاقہ بن گیا ہے، سی پیک کے حوالے کافی باتیں کی گئیں لیکن اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ انفرااسٹرکچر بنانا، توانائی کا حصول اور پاکستان سے ٹرانزٹ بنانا ہے. معید یوسف نے کہا کہ ہم اس رابطے کو مغرب تک بھی تو سیع دے سکتے ہیں لیکن بھارت میں حکومت کے رویے اور صورتحال کے سبب یہ راستہ بند ہو گیا ہے، مذکورہ حکومت کی ہندوتوا سوچ کے سبب ان کے ساتھ بات چیت کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے لیکن یہ راستہ بھی آگے جا کر کبھی نہ کبھی کھل جائے گا.انہوں نے کہا کہ دوسرا اہم ستون دنیا سے شراکت داریاں قائم کرنا ہے لیکن اس کا مطلب امداد نہیں ہے بلکہ اہم چیز یہ ہے کہ ہم ایکسپورٹ، تجارت، سرمایہ کاری، ایف بی آئی اور دیگر اہم چیزوں میں کس طرح سے پارٹنرشپ کر سکتے ہیں. انہوں نے کہا کہ ان سب کے لیے ہمیں ملک میں بھی کافی کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کم مزاحمت ہو گی، وہاں سرمایہ کار آئے گا اور ہمیں کوشش کرنی ہے کہ ہم اس پہلو میں بہتری لا سکیں انہوں نے ابتدائی دونوں پہلو اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتے جب تک ہم تیسرے ستون پر کام نہیں کرتے اور وہ اندرونی اور علاقائی امن و سلامتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کی جا رہی ہیں.انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے انسداد کے لیے 2007 سے اب تک پاکستان کی کاوشیں اور قربانیاں سب کے سامنے ہیں اور علاقائی طور پر افغانستان سب سے بہترین مثال ہے بلکہ حتیٰ کہ بھارت کی بھی مثال ہے کیونکہ ہم نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی تھی کہ ہم کس طرح سے تعلقات میں پیشرفت کر سکتے ہیں لیکن بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اور وہ جس راہ پر گامزن ہیں وہ بہت مایوس کن ہے.مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ دنیا جتنی جلدی آنکھیں کھول لے گی انہیں اتنی ہی جلدی اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ بھارت جس طرح سے اپنے تمام پڑوسی ممالک سے برتاﺅ کررہا ہے تو وہ اب صحیح معنوں میں پورے خطے کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے. انہوں نے کہا کہ افغانستان اب اس تمام صورتحال کا مرکز ہے کیونکہ جب تک افغانستان میں استحکام نہیں ہو گا تو آپ ایک مربوط راہداری کیسے بنا سکیں گے جو وسط ایشیا کو ہمارے گرم پانیوں سے منسلک کر سکے لہٰذا افغانستان بہت اہمیت کا حامل ہے.