شہرت کا نشہ

تحریر: سیدہ ام حبیبہ ۔۔۔۔
قارئین محترم عزت دولت اور شہرت ایسی بیماریاں ہیں جو ہر شخص پر حملہ آور ہوتی ہیں.
مگر اس کے اثرات عموماً دو طرح کے ظاہر ہوتے ہیں.
اول دولت عزت اور شہرت کو اللہ کریم کی کرم نوازی اور عطا سمجھ کر انسان عاجزی اور انکساری کا منبع بن کر خلقِ اللہ کی عبادت میں لگ جاتا ہے.
اللہ کے دیے میں سے دینا شروع کر دیتا ہے.
دوم اللہ کی عطا کو اپنی ذات کی بڑھائی مان کر عزت دولت اور شہرت کو صرف اپنا حق سمجھنا شروع کر دینا اور اس بنا پہ اپنی عادات اپنے اطوار پہ فخرو غرور کرنا اور رعونت آنے لگنا ایسے افراد جلد عروج پاتے ہیں اور آناً فاناً برباد ہو جاتے ہیں.
مگر ایک طبقہ جس نے عزت دولت اور شہرت کی چاہت میں اس عطا کو چھین کر اپنا مقدر کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے.
دراصل عزت دولت اور شہرت کے اصل معنی سے ناواقفیت کی وجہ سے آج کل فیم اور سلیبریٹی بننے کی جو دوڑ لگی ہے اس نے اخلاقیات کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے.
عائشہ اکرم اکیلا واقعہ نہیں ہے.ایسے ہزاروں افراد ہیں جو محض مشہور ہونے کے لیے اپنی ذات کی تضحیک ، اپنی جان داؤ پہ لگانا ، اپنے جسم کی نمائش تک سے دریغ نہیں کرتے.
دولت کے حصول کے لیے سوشل میڈیا پہ بطورِ خاص یو ٹیوب پہ ایسے ایسے عنوان اور ٹائٹل دے کر ویڈیو لگائی جاتی ہے کہ ویوز زیادہ ہوں.
ویوز فالورز لائکس کی دوڑ میں کچھ بھی پوسٹ کیا جا رہا ہے.
اس وجہ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز گندگی اور فیک نیوز کا ڈھیر بن چکے ہیں.
کہا جاتا ہے کہ چاہنے سے زیادہ چاہے جانے کا احساس خوبصورت ہوتا ہے .
لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ احساس اگر محسوس حد کو پار کر جائے تو اس چاہے جانے کے احساس جیسی بیماری کوئی نہیں.
ہر وقت ہر کسی اے چاہے جانے کی امید اور توقع انسان کو مصنوعی پن اور اخلاق باختگی کی جانب مائل کر دیتی ہے.
دیگر نشہ آور اشیاء کی مانند دولت عزت اور شہرت کا نشہ جائز و ناجائز حلال و حرام کی تمیز بھلا دیتا ہے.
اس نشے کا عادی لاعلاج ہو جاتا ہے.
اخلاقی برائیوں کو وہ شہرت کے حصول کا ذریعہ مانتے ہوئے ان کو اپنا ہتھیار تسلیم کر لیتا ہے.
مگر یہ خمار تب اترتا ہے جب حُسن اور جوانی ڈھلنے لگتی ہے
کبھی کبھار تو دولت کے چھن جانے پہ ہی یہ بیماری جان لیوا بن جاتی ہے.
ہزار دلائل کے بعد دنیا کی ایک اٹل حقیقت بدل نہیں سکتی کہ
عزت دولت شہرت تینوں کو زوال ہے.
جو شئے باقی رہ جاتی ہے وہ ان کے ملنے پہ سامنے آنے والا ردِ عمل اور اسکے نتائج ہیں.
فلاح وہی پائے گا جو ان کو نشے کی طرح نہیں بلکہ عطا مان کر استعمال کرے گا.
اور اگر عزت دولت شہرت کا فائدہ اللہ کی مخلوق کو نہ پہنچایا جائے تو یہ کبھی آپ کے پاس قیام نہیں کریں گی.
ہم پہ لازم ہے کہ اگر یہ میسر ہیں تو ان سے خلقِ خدا کی خدمت کی جائے ان پہ فخرو غرور کر کے اس نعمت کو ضائع نہ کریں .