بیس سالہ امریکی جنگ اور امارت اسلامیہ کا کابل پر قبضہ

تحریر: یاسر اقبال خان ۔۔۔۔
ستمبر 2001ء کو دو طیارے نیویارک شہر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاوروں سے ٹکرا دئے گئے، تیسرا طیارہ واشنگٹن ڈی سی کے بالکل باہر پینٹاگون سے ٹکرایا اور چوتھا طیارہ پنسلوانیا میں ایک کھلے میدان میں گر کر تباہ ہوگیا۔ تاریخ میں ان حملوں کو نائن الیون حملے کہا جاتا ہے نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں میں تقریبا 3،000 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ امریکہ نے ان حملوں کا ذمہ دار افغانستان میں موجود القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو قرار دے دیا۔
امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر نائن الیون کا بدلہ لینے کیلئے سر گرم ہوا۔ امریکی اور اتحادی افواج القاعدہ کے خلاف جنگ کیلئے افغانستان میں داخل ہوا اور افغانستان میں اپنے جنگ کا آغاز کردیا،ان کا مقصد افغانستان میں موجود القاعدہ اور طالبان سمیت تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی اور ان کو شکست دینا تھا لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا یہ دہشتگردی کے خلاف جنگ 20 سالہ طویل اور مہلک جنگ کی شکل اختیار کرگیا۔
2001 سے اب تک 3،500 سے زائد اتحادی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں – ان میں سے دو تہائی امریکی ہیں۔ 20 ہزار سے زائد امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ افغان جنگ میں مالی و جانی نقصان کو دیکھتے ہوئے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان دوحہ قطر میں فروری 2019ء کو امن مذاکرات ہوے اور یہ معاہدہ ہوا کہ طالبان اپنے زیر انتظام علاقوں میں القاعدہ سمیت کسی دہشت گرد عناصر کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور غیر ملکی افواج پر حملے بند کریں گے۔ ان مذاکرات میں امریکہ کی طرف سے کہا گیا کہ اگر طالبان نے یہ معاہدے پورے کئے تو امریکہ اپنے فوجی اور اتحادی نیٹو افواج کو اگلے 14 ماہ میں افغانستان سے نکال لے گا۔ امریکہ کے وفد کی نمائندگی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے وفد کی نمائندگی ملا عبدالغنی برادر نے کی۔ ستمبر 2019، کو طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات سابق امریکی صدر ڈونل ٹرمپ نے منسوح کردئے۔
29 فروری 2020ء کو ایک بار پھر امریکہ اور طالبان کے امن مذاکرات دوحہ قطر میں ہوے۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ ہوا جس سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی انخلا کی راہ ہموار ہوئی۔ معاہدے کے تحت طالبان کی طرف سے امریکہ اور اتحادیوں پر حملے بند کرنا تھا۔ 12 ستمبر 2020ء کو دوحہ ہے پہلی بار طالبان، افغان حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندے 20 سالوں میں پہلی بار دوحہ قطر میں آمنے سامنے ملے۔ اشرف غنی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ان مذاکرات کے اس دور میں افغانستان میں امن لانے اور غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن اور حکومتی نظام چلانے کیلئے فریم ورک بنانے پر اتفاق ہوا۔
17 نومبر 2020، کو قائم مقام امریکی وزیر دفاع کرسٹوفر سی ملر نے فوجی انخلا کا عملی طور پر اعلان کیا کہ جنوری 2021ء، کے وسط تک افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی تعداد آدھی کر کے 2500 کر دی جائے گی۔ 14 اپریل 2021ء کو امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکہ طالبان معاہدے کے تحت تمام فوجیوں کے انخلا کا عمل 11 ستمبر 2021ء، تک مکمل ہوجائے گا دوسری طرف طالبان کی مسلسل اشرف غنی کی حکومت اور افغان ملٹری کے خلاف پیش قدمی جاری تھی جسکو دیکھتے ہوئے امریکہ نے انخلا کی تاریخ اگست کے آخر میں رکھ دی۔
امریکہ طالبان کے درمیان امن معاہدے کے تحت طالبان نے امریکی اور بین الاقوامی فوجیوں پر اپنے حملے تو بند کر دیے تھے تاہم افغان حکومت کے ساتھ لڑائی جاری رکھی تھی۔ ہر نئے لمحے کے ساتھ افغانستان کے 34 صوبائی دارلحکومتوں میں پیش قدمی کر رہے تھے۔ 14 اگست 2021ء کو افغانستان کے صوبائی دارالحکومتوں پر طالبان کے کنٹرول کا ایک نیا نقشہ جاری ہوا جس کے تحت طالبان ملک کے 34 صوبائی دارالحکومتوں میں سے 22 پر قابض ہو گئے تھے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق طالبان نے 14 اگست کو پکتیکا کے دارالحکومت شارانا ، پکتیا کے دارالحکومت گردیز ، کنڑ کے دارالحکومت اسد آباد اور فاریاب کے دارالحکومت میمانہ پر قبضہ کر لیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق طالبان نے34صوبوں میں سے27صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کے بعد کابل کا روح کردیا اور طالبان 15 اگست 2021ء کو کابل جانے والی تمام مرکزی شاہراہوں پر قابض ہوگئے۔ صدر اشرف غنی کے مستغفی ہونے اور ملک چھوڑنے کے چندگھنٹے بعد طالبان جنگجو افغان صدارتی محل پہنچ گئے۔ افغان حکام اور طالبان جنگجوؤں کےدرمیان کابل پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طےپا گیا۔ یوں 15 اگست 2021ء کو طالبان نے اشرف غنی کے کابل حکومت کا تختہ الٹ دیا اور افغان صدارتی محل کا کنٹرول طالبان کے قبضے میں اگیا۔ اس کے ساتھ طالبان نے اپنی طرف سے افغانستان پر مسلط 20 سالہ طویل جنگ کے ختم ہونے کا اعلان کردیا۔
15 اگست 2021ء کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اب تک طالبان کے رہنما افغانستان میں اپنی حکومت کیلئے حکمت عملی بنا رہے ہیں اور اب تک افغان طالبان افغانستان کے تقریبأ تمام علاقوں پر قابض ہوچکے ہیں۔ 1996ء کے افغان طالبان کے حکومت کی نسبت 2021ء والے طالبان خواتین کے روزگار اور تعلیم پر کوئی پابندی نہ لگا نے کا کہہ رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک کی طرف سے ابھی تک طالبان کے حکومت کو تسلیم کرنے کے مثبت اشارے نہیں مل رہے کیونکہ ماضی میں طالبان کی حکومت میں خواتین کے روزگار اور تعلیم پر پابندی تھی اس کی وجہ سے انسانی حقوق کے نمائندوں کو سخت تشویش ہے کہ اب بھی ایسا ہوگا۔ طالبان کی طرف سے حکومت میں خواتین کو بھی حکومت میں شامل کرنے کے دعوے سامنے آرہے جس سے امید ہی کر سکتے ہیں کہ اس بار خواتین کی تعلیم اور روزگار پر طالبان کی پالیسی مختلف ہوگی۔