“امارت اسلامیہ کا افغانستان اور پاکستان پر اس کے اثرات”

تحریر : عمران خان شینواری ۔۔۔۔۔
بالآخر 20 سالہ جنگ و جدل کے بعد امارت اسلامی اُس کابل شہر میں واپس آگئے ہیں جہاں سے اکتوبر 2001 میں انہیں طاقت کے زور پر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے نکالا تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ امارت اسلامی نے کابل میں داخل ہوتے ہی قتل و غارت اور انتقامی کارروائیوں کے بجائے اپنے سخت سے سخت ترین دشمنوں کو بھی معاف کرنے کا اعلان کیا۔ مثال کے طور پر اشرف غنی انتظامیہ کے دور میں کندھار کے جس پولیس چیف شریف سرتایب نے تمام پولیس اور فوجی اہلکاروں کو حکم دیا تھا کہ مجاہدین کو دیکھتے ہی ان کا سر قلم کیا جائے، اسے بھی امارت اسلامی نے کندھار پر قبضے کے بعد صرف اتنی سزا دی کہ اسے امارت اسلامی رہنماؤں کا ڈرائیور بنا دیا۔ جہاں انہوں نے معافیاں دی وہی انہوں نے پکتیکا صوبے میں ان ملیشیا کو بھی نہیں بخشا جنہوں نے مجاہدین کے ساتھیوں کو زندہ جلایا تھا۔ چنانچہ طالبان کے رویوں میں اونچ نیچ تو دکھائی دے رہی ہے مگر ان کے سیاسی چہروں کی بات کی جائے تو ان میں پہلے کی نسبت کافی بدلاؤ دیکھنے کو ملا ہے۔ مگر ان سب باتوں سے یہ بھی سوال جنم لیتے ہیں کہ کابل میں قائم طالبان کی حکومت کا پاکستان کے سماجی ڈھانچے پر کیا فرق پڑے گا ؟
طالبان کی جانب سے جب پاکستان کی سرحد سے ملحقہ پہلا شہر سپین بولدک پر قبضہ کیا گیا تب پاکستان میں چمن اور کوئٹہ کے شہری بارڈر کے قریب پہنچے اور طالبان کا پرچم لہراتے ہوئے جشن مناتے ہوئے دکھائی دیئے گئے۔ اسی طرح پشاور میں بھی طالبان کے حق میں ریلیاں نکالی گئی۔ 15 اگست کو جب طالبان کابل میں داخل ہوئے تو اتنا جوش و ولولہ کابل یا افغانستان کے کسی دوسرے شہر میں نہیں دیکھا گیا جس قدر خوشی کا اظہار پاکستان کی سوشل میڈیا میں دیکھا جا رہا تھا۔ اگرچہ چند مبصرین کا یہ خیال بھی ہے کہ پاکستان میں اکثریت جو طالبان کے کابل پر قبضے پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے دراصل یہ وہ لوگ ہے جو بھارت کے افغانستان میں اثر ورسوخ ختم ہونے کا جشن منا رہے ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت دنیا بھر کی مسلح مذہبی تنظیموں نے طالبان کو مبارکبادیں بھیجی ہیں۔
پاکستانی بھلے ہی اس حقیقت سے انکار کرتے رہے کہ کابل میں طالبان کی حکومت سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں مگر ماضی کے تلخ تجربات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 1996 جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تب پاکستان میں بھی وہ جہادی سر اٹھانے لگے جنہوں نے روس کے خلاف جہاد میں حصہ لیا تھا۔ مولوی صوفی محمد نے تحریکِ نفاذِ شریعت کا اعلان کرکے ملاکنڈ پر قبضہ کیا اور ریاست کو باقائدہ چیلنج کیا۔ حکومت نے تب بھی بالکل ویسی ہی حقائق کو نظر انداز کیا اور یوں ملاکنڈ میں رجعت پسندانہ عمل میں تیزی آتی گئی۔ بات اس حد تک پہنچ گئی کے وادی سوات پر اس کے داماد ملا فضل اللہ (جسے مقامی سطح پر ملا ریڈیو بھی کہا جاتا تھا) نے باقائدہ قبضہ کرکے اپنی خود ساختہ شریعت کا اعلان کیا۔ بعد میں حکوت کو تب خیال آیا کہ جب منگورہ کی چوک پر آئے روز کسی نا کسی کی لاش لٹکی ہوئی نظر آتی تھی تو تب حکومت نے آپریشن راہِ راست کا اعلان کرکے سوات کو دہشت گردوں سے چھڑایا۔
پچھلی طالبان حکومت کے دوران پاکستان میں ان کا زیادہ اثر خیبر پختونخوا اور بالخصوص مالاکنڈ اور وزیرستان کے علاقوں میں دکھائی دیا مگر اس مرتبہ پاکستان کو زیادہ خطرہ پنجاب میں پنپتی ہوئی انتہا پسندانہ سوچ سے ہوسکتا ہے جس طرح کالعدم تحریک لبیک نوجوانوں کو مسلسل تششد کرنے کے لئے اکساتی ہے یہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ حال ہی میں ایک نوجوان نے لاہور کے شاہی قلعے میں راجا رنجیت سنگھ کا مجسمہ توڑا جو بعد میں معلوم ہو کہ پکڑا جانے والا شخص ٹی ایل پی کے نظریات سے متاثر تھا۔ اس کے علاوہ کئی ایسے اکاؤنٹس جو سوشل میڈیا پر طالبان کی حمایت اور پاکستان میں طالبان جیسا نظام لانے کے مطالبات کر رہے ہیں ان میں اکثر لوگوں کی پروفائل پکچر پر تحریک لبیک کا لوگو یا پھر خادم حسین رضوی کی تصویر لگائی گئی ہوتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستِ پاکستان کو آئندہ کالعدم تحریک طالبان سے زیادہ خطرہ پنجاب میں پنپتی ہوئی اس نئی انتہا پسندی سے ہوگا جسے وقت پر ایسی قانون سازی کے ذریعے روکنا چاہیے جو مذہبی اور جدت پسند دونوں طبقات کے لئے قابلِ قبول ہو ورنہ بادل ناخواستہ پاکستان کو پھر کسی (ٹی ایس این ایم) جیسے شرپسند گروہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب تحریکِ طالبان پاکستان کی کاروائیوں کو روکنے کے لئے حکومتِ پاکستان کو نئی بننے والی افغان حکومت کے ساتھ مل کر ایک ایسا میکینزم بنانا چاہئے کہ ٹی ٹی پی کسی بھی صورت میں پاکستان مخالف کاروائیوں کے لئے افغان سرزمین کا استعمال نا کرسکے۔ کیونکہ حال ہی میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھی کہ ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر ملا فقیر کو رہا کردیا گیا تھا۔ جو بعد میں معلوم ہوا کہ اسے اشرف غنی انتظامیہ کے دور میں رہا کیا گیا تھا۔ چنانچہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے افغان طالبان نے اپنی پالیسی واضح کی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کی بیعت کی ہے۔ لہذا پاکستان کو اپنے تمام کارڈز سوچ سمجھ کر کھیلنے ہونگے تاکہ پاکستان کو دوبارہ اس دہشت گردی کے دلدل میں گرنے سے بچایا جاسکے جہاں سے نکلنے کے لئے ستر ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا ہے۔