ہیپاٹائٹس بی اور سی سے روزانہ ہلاکتیں کورونا وائرس سے چار گنا زیادہ ہیں، ماہرین

کراچی : ہیپاٹائٹس بی اور سی کے نتیجے میں پاکستان میں روزانہ تین سو سے زائد افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں جو کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے تین سے چار گنا زیادہ ہیں، پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد چین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور ہر سال ہزاروں افراد ان دو مہلک وائرسز سے متاثر ہو کر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار ماہرین امراض پیٹ اور جگر نے ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے 2021 کے حوالے سے کراچی پریس کلب میں منعقد آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ہیپاٹائٹس کے حوالے سے آگاہی سیمینار کا اہتمام پاک جی آئی اینڈ لیور ڈیزیزز سوسائٹی (پی جی ایل ڈی ایس) نے کراچی پریس کلب کے تعاون سے کیا تھا۔سیمینار سے پی جی ایل ڈی ایس کی صدر ڈاکٹر لبنی کمانی, وائس پریزیڈنٹ ڈاکٹر نازش بٹ، پروفیسر ڈاکٹر شاہد احمد، پروفیسر امان اللہ عباسی اور ڈاکٹر سجاد جمیل نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر کراچی پریس کلب کے اراکین، ان کے اہل خانہ اور ملازمین کے لیے ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ٹیسٹ بھی کیے گئے، آگاہی سیمینار کے بعد لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے مختصر واک بھی کی گئی۔لیاقت نیشنل اسپتال اور آغا خان یونیورسٹی اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر لبنا کمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو کورونا کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائٹس بی اور سی کی وبا کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں روزانہ 300 سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کے نتیجے میں ہونے والی جگر کی پیچیدگیوں کی وجہ سے جاں بحق ہو جاتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے اور ہر سال ان میں ڈیڑھ لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ڈاکٹر لبنی کمانی نے کہا کہ ہیپاٹائٹس بی اور آلودہ خون کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتے ہیں جس کا ذریعہ ایک سے زائد بار استعمال کی جانے والی سرنجز، ڈرپس، دانتوں کے ڈاکٹروں اور حجاموں کے آلودہ آلات اور ناک اور کانوں کو چھیدنے والی آلودہ سوئیاں ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت پاکستان کو اس مرض سے 2030 تک جان چھڑانی ہے تو اسے ملک کی 90 فیصد آبادی کو ان دو امراض کے لئے اسکرین کرنا ہوگا اور اس مرض میں مبتلا 80 فیصد افراد کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔جناح اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر نازش بٹ نے مزید کہا کہ سندھ کے کچھ علاقو جن میں جیکب آباد، لاڑکانہ، قمبر اور سندھ بلوچستان کے سرحدی قبائلی علاقے شامل ہے وہاں پر اس مرض کی شرح 15 سے 25 فیصد تک ہے، حکومت کو چاہیے کہ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہروں میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کی اسکریننگ کو بڑھائے، عوام الناس میں شعور پیدا کر کے اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔پی جی ایل ڈی ایس کے کے سرپرست اعلی پروفیسر ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی نہ صرف قابل علاج مرض ہیں بلکہ ان کا علاج نہایت ہی سستا اور آسان بھی ہے، کراچی سمیت ملک بھر میں درجنوں فلاحی تنظیمیں اور حکومتی ادارے ہیپاٹائٹس بی اور سی کی نہ صرف اسکریننگ کرتے ہیں بلکہ اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کو مفت ادویات بھی فراہم کرتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا کو اس مرض کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ اس جان لیوا مرض کا جلد سے جلد علاج کروا کے صحت مند زندگی گزار سکیں۔لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر سجاد جمیل کے مطابق عوام کو نہ صرف کورونا وبا کے خلاف ویکسین لگوانی چاہیے بلکہ وہ نہ صرف ہیپاٹائٹس سمیت دیگر بیماریوں کی ویکسین لگوا کر محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد درد دیگر افراد کو بھی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ڈائو یونیورسٹی کراچی کے پروفیسر اور سابق رجسٹرار پروفیسر امان اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شراب نوشی کی وجہ سے بھی لوگوں کے جگر خراب ہو رہے ہیں جگر کی بیماریوں کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کر کے انہیں جوانی میں اموات سے بچایا جا سکتا ہے۔