گھر واپس آجاو تمہے کچھ نہیں کہا جائے گا

تحریر: خالد خان ۔۔۔۔۔
گم ہونا انسانی فطرت ہےاسی لیئے شائد آنکھ مچولی بچوں کا پسندیدہ کھیل ہوتا ہے جس میں وہ دوسروں کے لیئے خود کو گم شدہ کرتے ہیں ۔
گمشدہ کروانا بعض لوگوں کی ایسی پختہ عادت بن جاتی ہے کہ وہ خود گمنام رہتے ہوئے اچھے خاصے پھنے خانوں کو گم شدہ کرتے رہتے ہیں ۔ جو معلوم افراد نامعلوم افراد کے ہاتھوں گم شدہ ہوجاتے ہیں وہ پھر جنم جنم تک گمنام ، گمشدہ اور نامعلوم رہتے ہیں ۔
انسان بہت جلدی رستوں کو بھی گم شدہ کرتا رہتا ہےاس لیئے آسمانی صحیفے لیکر انبیا معبث ہوئے کہ گم راہوں کو صراط مستقیم پر لائیں ۔
عموما کم سنی ، لڑکپن یا نوجوانی میں بچے گم ہوجاتے ہیں اور پریشاں حال والدین اور لواحقین اعلان گمشدگی جاری کرتے رہتے ہیں ۔ اعلان گمشدگی کے ہر اشتہار میں چند مخصوص جملے ضرور ہوتے ہیں جو کچھ یوں ہوتے ہیں ۔” تمام گھر والے پریشان ہیں ، گھر آجاو تمہے کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ ماں کا روتے روتے برا حال ہوگیا ہے جبکہ بہنوں پر بھی غشی طاری رہتی ہے ۔ دادی بھی بہت غمگین ہے ۔ بعض اشتہارات میں تو عوام الناس کو تلاش پر اکسانے کے لیئے باقاعدہ انعام کا لالچ بھی دیا جاتا ہے ۔
کچھ گمشدہ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ صبح کو گم ہو کر شام کو گھر آجاتے ہیں جنکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ” اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے “۔
اچھا تو پھر اسے کیا کہتے ہیں؟
بخدا مجھے خود نہیں معلوم!
لیکن قیاس ہے کہ اسے لکھاری کہتے ہونگے ۔ کیونکہ میں اب بھی شہر میں خود کو گم کرتا ہوں اور جب راستہ تلاش کرتا کرتا اپنے منزل پر پہنچتا ہوں تو تب تک کوئی افسانہ ، کوئی نظم کوئی ڈرامہ بھی ڈھونڈ چکا ہوتا ہوں ۔
بہت سارے بھولے مزدور بھی کہلاتے ہیں جو زندگی کی تلاش میں زندگی کی بھیڑ میں ہر صبح گم ہوجاتے ہیں اور شام کو تنہا اور تہی دست گھروں کو واپس لوٹتے ہیں ۔
لیکن اس وقت میں جس گمشدگی کی بات کرتا ہوں وہ ایک دوشیزہ کی گمشدگی کی داستاں خونچکاں ہے ۔ مجھے زبان دانی میں کوئی ملکہ تو حاصل نہیں ہے لیکن ” بجلی ” لغت اور گرائمر کی رو سے مجھے صنف نازک یعنی مونث لگتی ہے ۔
گرائمر کے علاوہ اسکے تمام عادات و اطوار بھی زنانہ ہی لگتے ہیں اور اس نے فطرت بھی دوشیزگی کی پائی ہوئی ہے ۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ” بجلی ” ایک بدچلن لڑکی ہے اور اس کی چال چلن پیدائشی طور پر قابل اعتراض رہی ہے ۔
ویسے قومیت کے حساب سے بجلی کم بخت ہے تو پھٹانی لیکن گشتی لاہور کی ہیرا منڈی کے پڑوس میں رہتی ہے اور دھڑلے سے کہتی ہے کہ میرا آبائی بڑا گھر لاہور ہی ہے ۔
بے غیرت تو اتنی ہے کہ بجائے پختونخوا میں جہاں کی ڈومیسائل اسکے پاس ہے ندارد اور ناپید ہوتی ہے جبکہ اٹک کے اس پار مٹر گشتیاں کرتی رہتی ہے ۔
پشتون پانی سے بننے کے باوجود بھی اسکی آنکھ میں پانی نہیں ہے ۔ پنجاب میں سستی بکتی اور نیلام ہوتی ہے جبکہ پشتونوں کو بلیک کے نرخ پر ملتی ہے اور وہ بھی ناز و نخرو کے بعد ۔ بےحیا تو اس درجے کی ہے کہ طالبان کے علاقوں میں بھی ننگی تاروں میں دوڑتی رہتی ہے جو ایک کفریہ عمل بھی ہے ۔
اپنوں کو تو اب عید بقر عید پر بھی جلوہ نہیں دکھاتی جبکہ اغیار کی گود روشنی سے بھری رکھتی ہے ۔
بدچلن اور بدقماش اتنی ہے کہ پہلے ایک دلال کے ساتھ اسکا کھاتہ تھا جسکا واپڈا نام تھا ۔ اب ہر شہر میں اس نے الگ الگ سے دلال رکھے ہیں جن کے عجیب و غریب القابات ہوتے ہیں جیسے پیسکو ، ڈیسکو اور ٹسکو وغیرہ وغیرہ ۔
جس طرح طوائفیں پولیس والوں کی ماہواری میں ناغہ کرتی ہیں بالکل اسی طرح یہ صوبائی ماہواری بھی ادا نہیں کرتی اور ہماری مقروض ہونے کے باوجود بھی ہمیں بے نور آنکھیں دکھاتی رہتی ہے ۔
آپ کو شکل و صورت سے جہاں بھی کوئی خرانٹ قسم کا آدمی دکھائے دے آپ سمجھ جائیے کہ وہ بجلی کے دلال خاندان کا فرد ہوگا ۔
اس سے آپ اسکی بری صحبت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
گمشدگی کے اشتہار تو ایک طرف اسکے لواحقین جو عرف عام میں عوام کہلاتے ہیں اسکی واپسی کے لیئے جلسے جلوس منعقد کرتے رہتے ہیں اور احتجاجی مظاہرے بھی کرتے رہتے ہیں مگر مجال ہے کہ اس کے کان پر جوں تک رینگے ۔
ہٹ دھرم بھی اتنی ہے کہ شب بسری کے بغیر باقاعدگی کے ساتھ اپنی وصولی عوام سے کرتی رہتی ہے ۔
مجبورا آج ان سطور کے ذریعے اسے اطلاع دی جاتی ہے کہ گھر واپس آجاو تمہے کچھ بھی نہیں کہا جائے گا ۔ ماں کا روتے روتے برا حال ہوچکا ہے جبکہ بہنوں پر بھی غشی طاری رہتی ہے اور دادی بھی افسردہ ہے ۔بچے بھی بلک بلک کر رو رہے ہیں اور جاں بہ لب مریض بھی اپنی عاقبت کو بھول کر تمہارے آنے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں ۔
اب آ بھی جاو بجلی بیگم کہ کم بخت تجھے طلاق بھی نہیں دے سکتے اور بخدا تیرے بغیر بس ویسے ہی اپنا آپ طلاقی طلاقی لگتا ہے ۔