صحافت کے لبادے میں مصروف عمل جرائم پیشہ افراد اور ہمارے ادارے

تحریر:خالد خان ۔۔۔۔
صحافی جب بھی خدائی فوجداری کا فریضہ نبھانے کی کوشش کرتے ہیں حالات سدھرنے کی بجائے بگاڑ کی طرف جاتے ہیں ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صحافی اس نوع کی سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں یا نہیں؟
اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر وہ کون لوگ ہوتے ہیں جنہیں خوش فہمی، غلط فہمی یا زہنی بیماری لاحق ہوجاتی ہے اور وہ خود کو صحافی سمجھنے لگتے ہیں؟
زیر نظر مضمون میں ہم صحافی اور سلوتری کا جائزہ پیش کرینگے اور صحافیانہ اور غیر صحافیانہ سرگرمیوں میں ایک لکیر کھینچنے کی کوشش کرینگے ۔
ابلاغ عامہ کے مستند ذرائع کے توسط سے قومی مسائل کو اجاگر کرنےاور اس پر رائے عامہ کو ہموار کرنے کی سعی کو ہم اپنی آسانی کے لیے اگر صحافت کی اساسی تعریف سمجھیں تو ہمیں صحافی کی شناخت میں آسانی ہوجاتی ہے ۔
پاکستان کے قیام کے فورا بعد ملک بھر میں صحافت سے جتنے بھی پیشہ ور وابستہ ہوئے تھے انہوں نے رسمی طور پر جامعات سے صحافتی ڈگریاں نہیں لی ہوئی تھیں اور تربیت کی بدولت صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دیا کرتے تھے ۔
پاکستان میں کافی تاخیر سے کراچی اور لاہور میں ایم اے جرنلزم کی ڈگری جامعات کی سطح پر متعارف ہوئی ۔
خیبر پختونخوا میں ایم اے جرنلزم کا آغاز گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوا تھا جہاں کے فارغ التحصیل طلبا میں معروف صحافی شمیم شاہد اور سابقہ ڈائریکٹر انفارمیشن پختونخوا شعیب الدین بھی شامل تھے ۔
جامع پشاور میں جرنلزم کی ابتدا شام کے وقت انگلش ڈیپارٹمنٹ کے کلاس رومز میں ایک مختصر دورانیئے کے سند سے ہوئی تھی جسکی بنیاد پاکستان ٹائمز کے بیورو چیف حافظ ثناءاللہ نے رکھی تھی جس میں چند گنے چنے شوقیہ طالب علم داخلہ لیا کرتے تھے اور وہاں سے عملی صحافت میں کوئی پیشہ ور صحافی صنعت میں شامل نہیں ہوا تھا ۔
کافی تاخیر سے جامع پشاور میں باضابطہ ایم اے جرنلزم کا ابتدا ہوا اور تب سے لیکر اب تک ہزاروں کی تعداد میں طلبا فارغ ہو کر ابلاغ عامہ کے مختلف اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
مختلف وجوہات کی بنا پر تاہم اب بھی ایک کثیر تعداد ایم اے جرنلزم کی ڈگریوں کے بغیر صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
ایم اے جرنلزم کی ڈگریوں کے بغیر صحافت کرنے والے پیشہ وروں کی چار خصوصیات ہوتی ہیں ۔ پہلی خاصیت صحافتی رحجان کی ہوتی ہے جبکہ دوسرا معیار کسی مستند صحافی کے زیر سایہ تربیت حاصل کرنی کی ہوتی اور تیسرا وصف کسی مستند صحافتی ادارے کے ساتھ معاوضے پر وابستگی ہوتی ہے ۔ چوتھی خصوصیت عوامی شناخت اور پزیرائی ہوتی ہے جسکی مثالیں دی نیوز انٹرنیشنل کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر رحیم اللہ یوسفزئی اور ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اسمعیل خان کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر معروف سند یافتہ صحافیوں کی مثال دی جائے تو انگریزی اخبار دی مسلم کے سابقہ بیورو چیف مرتضی ملک ایک بہترین مثال ہے جن کا اولین ڈگری یافتہ صحافیوں میں نام شامل ہے ۔ تاہم یاد رہے کہ مرتضی ملک کا تعلق ساہیوال سے ہے اور پشاور صحافت کرنے کے لئیے منتقل ہوئے تھے جب انکی تعیناتی بطور بیورو چیف پاکستان ٹائمز پشاور میں ہوئی تھی ۔
راقم الحروف بھی ان صحافیوں میں شامل ہے جنہوں نے صحافت سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر نہیں پڑھی ہے مگر مختلف اساتذہ سے مختلف اداروں میں تربیت حاصل کرچکا ہے ۔ فی زمانہ راقم الحروف بھی ان صحافیوں کے صف میں کھڑے ہیں جو ڈگری کے بغیر کام کر رہے ہیں اور ایک طرح سے صحافت کی پرائی اولاد شمار کی جاتی ہے ۔
تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ صحافیوں کے مقابلے میں آج کل وطن عزیز میں غیر تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ صحافیوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے ۔ ایسے تمام صحافی ڈیجیٹل میڈیا کے خود ساختہ سلوتری ہیں جو وٹس ایپ نیوز گروپس ، فیس بک پیجیز، یوٹیوب چینلز اور سماجی رابطوں کے دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ بلیک میلنگ ، جعل سازیوں، فراڈز اور حرام خوری میں مبتلا ہوتے ہیں اور صحافتی اور ثقافتی اقدار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں بلکہ معاشرے میں انتشار اور قبیح روایات کے ذمہ دار ہیں ۔
بہت سارے صحافتی دعوی دار تو صحافتی تعلیم چہ جائیکہ رسمی طور پر بھی تعلیم یافتہ نہیں ہیں ، نہ ہی انکی تربیت ہوئی ہے اور نہ ہی قومی سطح کے کسی معروف صحافتی ادارے سے وابستہ رہے ہیں ۔ایسے زیادہ تر افراد نہ تو کسی صحافتی تنظیم ، یونین اور پریس کلبز کے ارکان ہیں اور نہ ہی وفاقی اور صوبائی سطح پر ریاستی تسلیم شدہ صحافی ہیں ۔
خود نمائی ، ذاتی اغراض و مقاصد اور مختصرالمدت اور طویل المعیاد نجی منصوبوں کے حصول کے لیئے یہ وارداتئیے خصوصی طور پر سرکاری اہلکاروں کو بلیک میل کرتے ہیں کیونکہ ہمارے سماجی حمام میں سب ننگے ہیں ۔ ان سلوتریوں کو بےشک صحافت کی الف ب نہ آتی ہو لیکن معاشرے میں سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی میں ان کو ملکہ حاصل ہوتا ہے اور اکٹوپس کی طرح مقامی انتظامی ڈھانچوں سے لپٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔
بنا وردی کے یہ خود ساختہ تھانیدار علاقے میں دھاندھاتے ہوئے پھرتے ہیں اور سیاسی اور سماجی نظام پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں ۔
صوبائی حکومت کو اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے واضح پالیسی تشکیل دینی چاہیئے اور صوبہ بھر میں ضلعی انتظامیہ اس پالیسی کو من و عن نافذ کرنے کو یقینی بنائے ۔
ضلعی پولیس سربراہان کو ایسے تمام سلوتریوں کے تھانہ جات میں داخلوں پر پابندی لگانی چاہیئے کیونکہ کسی بھی قانون کی رو سے ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور ایسے لوگوں کو خوش آمدید کہنا گویا کہ قانون شکنی کے مترادف ہے ۔
تمام صحافتی تنظیموں ، یونینز، پریس کلبز ، محکمہ اطلاعات اور حقیقی صحافیوں کو بھی اس روش کے خلاف آواز اٹھانی چاہیئے اور ایسے کسی وٹس ایپ گروپ یا سماجی رابطوں کے کسی بھی پلیٹ فارم پر مصروف عمل سلوتریوں کے رکن ، حمایتی یا ساتھی بننے سے اجتناب کرے ۔
مستقبل قریب میں یہ سلوتری جرائم پیشہ لوگ حقیقی صحافیوں ، عوام اور انتظامیہ کے لیئے بہت بڑے سماجی اور قانونی مسلے کی صورت میں سامنے ائینگے ۔