افغان بیمار بچے کا علاج اور افغان قیادت کا پاکستان پر الزام تراشیاں ؟

تحریر: عبداللہ شاہ بغدادی ۔۔۔۔۔۔
پوری دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں سب آدم ؑ کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کو قبیلوں اور قوموں میں اس لئے تقسیم کیا گیا ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو یعنی یہ تقسیم محفل تعارف کیلئے ہے۔ اس لئے نہیں کہ اس بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا شروع کردیا جائے اللہ تعالیٰ کے ہاں فضیلت اور برتری کا معیار جنس ذات، رنگ ونسل اور مال ودولت نہیں ہے۔ معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے، پرہیزگاری اور حسن عمل ہے جو شخص زیادہ متقی ہے زیادہ پرہیزگار ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہے وہی اللہ کے ہاں زیادہ عزت والا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر شے کے بارے میں پورا علم رکھتا ہے۔ دل میں اپنے انسانیت کے لیے محبت ہو تو خدا بھی خوش ہو جاتا اور دل کو بھی سکون ملتا ہے- افغانستان سے پاکستان واپس لوٹنے والے پاکستانی نے بھائی چارے کی اعلی مثال قائم کر دی، پاکستان کیلئے سفری دستاویزات نہ ملنے پر افغان جوڑے نے اپنے 5 ماہ کے بیمار بیٹے کو علاج کیلئے پاکستانی ڈرائیور کے حوالے کردیا، پاکستانی ڈرائیور نے مشفقانہ برتاؤ کرتے ہوئے بچے کو پشاور کے اسپتال میں داخل کرادیا اور کئی دنوں تک بچے کے صحت یاب ہونے تک اس کی نگہداشت بھی کی- سفری تفصیلات کےمطابق دستاویزات نہ ملنے پر افغان جوڑے نے 5 ماہ کے بیمار بیٹے کو علاج کیلئے وطن واپس لوٹتے پاکستانی ڈرائیور کے حوالے کردیا جبکہ پاکستانی ڈرائیور بھی مشفقانہ برتاؤ کرتے ہوئے بچے کو پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں داخل کرادیا۔پڑوسی پڑوسی ہی ہوتے ہیں جو تلخیوں اور دوریاں کے باوجود مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہمدردانہ برتاؤ پاکستانی ٹرک ڈرائیور نے ایک افغان خاندان کے ساتھ روا رکھا جو سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث خود افغانستان میں رہ گیا اور اپنے بچے کو پاکستانی ڈرائیور کے سپرد کر دیا۔ افغانستان کی دکھیاری ماں کو جب پتا چلا کہ اس کے 5 ماہ کا بیٹا شاہد تیز بخار اور جھٹکے کے مرض میں مبتلا ہے تو سرحد کے اس پار پشاور میں علاج کیلئے تگ ودود شروع کردی۔تاہم سفری دستاویزات مکمل نہ ہونے کے باعث والدین نے اپنے جگر کے ٹکڑے کو علاج کیلئے پاکستانی ٹرک ڈرائیور کے ذریعے پشاور روانہ کر دیا اور خود افغانستان میں رہ گئے۔ ٹرک ڈرائیور نے بھی بھائی چارے کی اعلیٰ مثال پیش کی اور بچے کو پشاور لے آیا اور بچے کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں داخل کرادیا۔ بیمار افغان بچے کی نیوز سوشل میڈیا پر نشر ہونے کے بعد وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیرنورالحق قادری نے بچے کے والدین کو طورخم بارڈر کے راستے ہسپتال لانے کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا تھا جس پر بچے کے والدین کو پاکستانی فورسز اور حکومتی اداروں نے جذبہ خیرسگالی کے تحت بغیر ضروری کاغذات بارڈر کراس کرا کر پشاور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس ​پہنچایا گیا.ہسپتال میں افغانی بچے کا مفت علاج معالجہ جاری ہے،علاقے کے عوام اور افغان بچے کے والدین نے حکومت اور پاکستان کے سیکورٹی فورسز کا خصوصی شکریہ ادا کیا. بیمار بچہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں زیر علاج ہے اور اب اس کی حالت کافی بہتر ہوگئی ہے۔بچے کے والدین بھی بہتر نگہداشت اور علاج پر بہت خوش ہیں۔ یہ پہلا افغان بچہ نہیں جس کا علاج پشاور کے سرکاری اسپتال میں کیا گیا بلکہ افغانستان میں علاج و معالجے کی ناکافی سہولیات کے پیش نظر س سینکڑوں کی تعداد میں مریض پشاور کے نجی اور سرکاری اسپتالوں میں لائے جاتے ہیں جہاں ان کا تسلی بخش علاج کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ
افغانستان میں قیام امن سے متعلق پاکستان کی پوزیشن بہت واضح ہے، پاکستان امن عمل میں شراکت دار ہیں۔پوری دنیا افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار سے واقف ہے؟ لیکن افغان قیادت پاکستان پر الزام تراشی پر گریز نہیں کرتے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں رونما ہونے والی سیاسی صورتحال پر خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ بھارت نے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں تخریب کاری کے لیے استعمال کیا ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انٹرویو کے دوران افغانستان کے ساتھ شراکت کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم امن کے لیے شراکت داری پر یقین رکھتے ہیں’۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پرامن، محفوظ اور مستحکم افغانستان کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے واحد راستہ افغانوں میں مفاہمت، بقائے باہمی اور بات چیت ہے۔شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ ہم افغانستان میں امن اور اس کے استحکام کے خواہاں ہیں اور سمجھتے ہیں اس طرح علاقائی روابط کو فروغ ملے اور دونوں ممالک کے لیے معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اقتصادی سلامتی، سرمایہ کاری، دوطرفہ اور علاقائی تجارت، امن اور استحکام نہ صرف افغانستان بلکہ ہماری بھی خواہش ہے اور یہ ہمارے لیے بھی ناگزیر ہے۔ بھارت، افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔بھارت دہشت گردوں کو اسلحہ دیتا ہے، مالی مدد دیتا ہے اور تربیت بھی کرتا ہے۔گزشتہ ہفتہ وزیر اعظم عمران خان نے غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں فضائی آپریشن کے لیے ائربیس نہیں دے سکتے۔ پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ ممکن ہی نہیں کہ ہم امریکہ کو افغانستان میں کارروائی کے لیے پاکستان میں اڈے دیں۔عمران خان کے صاف انکار کے بعد بھارت کے اوسان خطا ہوگئے کیونکہ بھارت کی پاکستان کے خلاف افغانستان میں منظم کی جانے والی سازشوں کا دور ختم ہوگیا اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستانی حکومت، پاکستان کے سیکورٹی اداروں اور عوام نے ہمیشہ افغانستان اور اس کے عوام کو غیر نہیں سمجھا بلکہ اپنا سمجھ کر اسکے غم اور دکھ میں برابر کے شریک رہے افغانستان کے عوام پر جب بھی مصیبت آئی ہے تو سب سے پہلے پاکستان نے ساتھ دیکر اس کے مصیبت اور مسائل حل کرنے میں کردار ادا کیا جس کی زندہ مثال افغانستان کے بیمار بچہ ہے جس کے والدین کو بغیر دستاویزات پاکستان آنے کی اجازت ملنے کے علاوہ بچے کا علاج بھی سرکاری سطح پر ہورہا ہے؟