پختہ یقین

تحریر: عبدالغفار لنگاہ ۔۔۔۔۔۔۔
دوستو آپ لوگوں نے مریم نواز کو ہاتھ میں اکثر گلاس تھامے ہوئے دیکھا ہی ہو گا اب اس کا مقصد کیا ہے وہ میرا اللہ ہی جانتا ہے میری نظر سے بھی مریم نواز کی بہت ساری تصاویر گزریں جن میں وہ گلاس تھامےہوئے ہیں ان تصاویر کو دیکھ کر مجھے ایک قصہ یاد آیا جو مجھے میرے والد مرحوم نے سنایا تھا سوچ تحریری شکل میں لا کر آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کروں۔
دوستو کسی زمانے میں ایک میں گھر ساس اور بہو ساتھ رہتی تھیں جن کا آپس میں اکثر ہی آپس میں جھگڑا رہتا تھا ایک دن بہو نے سوچا کہ کیوں نہ ساس سے جان ہی چھوڑائی جائے یہ سوچ کر بہو کسی مولوی کے ہاں چلی گئی اس نے مولوی کو ساری آپ بیتی سنائی، مولوی نے تمام تر صورتحال کا بغور جائزہ لیا اور ہولے سے قلم و کاغذ اٹھا کر لکھنا شروع کردیا لکھائی کے بعد یہ تعویز عورت یعنی بہو کے ہاتھ میں تھما دیا اور ہدایات جاری کرتے ہوئے اس بات پر زیادہ زور دیتے ہوئے کہا کہ اس تعویز کو پلاسٹک کی چھوٹی تھیلی یا ٹکڑے میں محفوظ کر لینا پھر جب آپ کی ساس آپ سے لڑنا جھگڑنا شروع کردے تو اس کو اپنے جبڑوں والی سائیڈ پر منہ میں رکھ کر زور زور سے دباتی رہنا اور جتنا آپ کی ساس چیلائے اتنا ہی زور دیتی جانا، عورت یہ سب ہدایات اپنے پلو سے مضبوط باندھ کر شکریہ کے ساتھ واپس اپنے گھر کو روانہ ھوگئیں اگلے دن حسبِ معمول ساس اور بہو کے درمیان وہ روز کی لڑائی شروع ہوگئی تو بہو کو مولوی والی ہدایات دماغ میں گھنٹیاں بجانے لگیں اس نے فوراً وہ تعویز نکالا اور اپنے منہ میں رکھ دیا پھر جتنا اس کی ساس شور و غل کے ساتھ چیلاتی رہی تو بہو اتنے ہی زور سے تعویز کو جبڑوں سے دباتی رہی یہ سلسلہ ایک عرصے تک جاری رہا آخرکاری ساس بھی اس بات کو سوچ کر مجبور ہوگئی کہ میں اس کو دنیا جہاں کی گالیاں دیتی ہوں ، طرح طرح کی باتیں اور بےعزتی کرتی رہتی ہوں مگر میری بہو مجھے پلٹ کر میری باتوں کا جواب تک نہیں دیتی اور خاموش رہ کر سب سنتی اور برداشت کرتی رہتی ہیں پھر کیوں نا میں اب بس ہی کردوں اس زور روز کے ڈرامے کو بند ہی کردوں ، ساس نے فیصلہ کیا کہ بس آج کے بعد لڑنا جھگڑنا بند اور خوشی خوشی ساتھ رہیں گے کچھ دونوں بعد ساس کا روائیہ دیکھ کر بہو حیران رہ گئی کہ اچانک کیا ہوا جو ساس مجھ پر مہربان مہربان ہے اور اب خاموش ہے نہ لڑتی ہے نہ جھگڑتی ہے یہ اسی مولوں کے تعویز کا اثر ہی ہے بہو بھی خوش ہوگئی اور سوچا کہ اب سائیں مولوں کا شکریہ ادا کیا جائے جس کی وجہ سے میری زندگی آسان ہوگئی ہے بہو نے اگلے دن مولوں کےلئے کافی سارے تحائف لیئے اور سائیں مولوی کے ہاں پہنچ گئیں باری آنے پر مولوی صاحب کو سب کچھ بتایا اور کہا کہ مولوی صاحب آپ نے تو کمال کردیا میرا گھر اب جنت بن گیا ہے اور میری ساس مجھے بیٹیوں کی طرح پال رہی ہے جس کے جواب میں مولوی نے کہا کہ محترمہ کمال نہ میرا ہے اور نہ ہی میرے دیئے ہوئے اس کاغذ کے ٹکڑے کا ہے بلکہ کمال تو آپ کا ہے جس نے برادشت کیا اور ساس کے بولنے پر بھی چپ رہی ھو،یہ تعویز نما محض ایک کاغذ کا خالی ٹکٹرا ہی تھا یہ میں اس لئے دیا کہ ساس لڑتی تھی تو ساتھ میں آپ شروع ہو جاتی تھیں ایسے میں ایک کو خاموش رہنا لازمی تھا تاکہ بات آگے نہ بڑے بس یہ سوچ کر میں آپ کو یہ کاغذ کا ٹکڑا دیا اور اس پر عمل کرنے کہا کہ تاکہ آپ میری بات پر عمل کرو گی تو منہ میں یہ تعویز ہونے کی وجہ سے بول نہیں پاوُ گی اور جب جواب نہیں آئے گا تو حالات خود بخود بہتر ہو جائیں گے۔
تو دوستو آپ لوگوں نے دیکھ کہ بات تعویز کی نہیں بلکہ اس بہو کے پختہ یقین کی ہے جو کہ مولوی کے دیئے ہوئے اس کاغذ کے ٹکڑے پر تھی تو بس مریم نواز کی بھی گلاس والی کہانی کچھ اسی طرح کی ہی ہے وہ جہاں بھی جاتی ہیں گلاس ہاتھ میں ہوتا ہےجو شاید کسی مولوی وغیرہ نے دیا ہوگا کہ یہ گلاس والا عمل کرنے سے آپ پاکستان کی وزیراعظم بن جاوُ گی، بس تب سے یہ پختہ یقین رکھ کر گلاس گھما رہی ہے اور عمران خان سکون سے حکومت چلا رہا ہے اور شاید اگلی حکومت پھر عمران کی ہی آئے اور مریم نواز اس گلاس والے چکر میں پختہ یقین کے ساتھ ہی رہ جائے۔