شہر روغان

تحریر: عبدالغفار لنگاہ ۔۔۔۔۔۔
پاکستان ہمارا خوبصورت وطن،جو ہم سب کو جان سے بھی زیادہ عزیز اور پیارا ہے یہ وطن جتنا خود حسین و جمیل ہے اتنے ہی خوبصورت اور دلکش مقامات اور جگہیں رکھتا ہے جو کہ قدرتی نظاروں اور خود انسانی تخلیقات کے شاہکار ہیں ایسا ہی ایک مقام شہر روغان ہے جو بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کی تحصیل بیلہ کے شمالی اور مغربی سمت کی جانب تقریباً 15 یا 20 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہےیہ مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے جن میں مائی پیر، مائی بروچانی، گوندرانی بیلہ کے نام شامل ہیں اس شہر میں بڑے بڑے غار موجود ہیں جن کے اندر مزید چھوٹے چھوٹے غار ہیں جو کہ انسانی ہاتھ کی تخلیق کی نشاندہی کرتے ہیں ان غاروں میں ہزروں لاکھوں سال قبل کوئی قوم رہائش پزیر تھی جس کے آثار واضح یقینی نظر آرہے ہیں مگر بدقسمتی سے اس شہر کی کوئی مستند تاریخ یا آثار قدیمہ میں باقاعدہ اس کا ذکر نہیں مگر مقامی سطح پر تین کہانیاں یا قضہ گوئی مشہور ہیں پہلا یہ کہ یہاں بدھ مت کے ماننے والوں کی ایک بستی تھی جو ساتویں صدی میں یہاں آباد ھوئے تھے یہ باقاعدہ بدھ مت کے پیروکاروں کا شہر تھا اور بدھ مت یہاں اس خطے میں کبھی اپنے عروج کو تھے ان غاروں میں بننے ھوئے کمروں میں چراغ رکھنے کی جگہ بھی دیکھائی دیتی ہے غاروں کی تعمیر جس میں برآمدے، مرکزی کمرے، ملحقہ کمرے موجود ہیں اس کے علاوہ انفرادی غاروں جن کو آپ گھر بھی کہہ سکتے ہیں ان کی بناوٹ میں بھی کافی فرق ہے ہم اس کو معاشرے میں رہن سہن کی سطح کہتے ہیں۔ کئی غار کشادہ ہیں باورچی خانہ اور اشیاء کو ذخیرہ کرنے کے گودام یا کمرے بھی ہیں ان سب کے باوجود بھی تاریخ خاموش ہے جبکہ نیشنل جیگرافیک کی ایک اسٹوری میں اس جگہ کو بدھسٹ قوم کہا گیا ہے۔
اگر دوسری کہانی کی بات کی جائے تو یہاں ان غاروں میں بد روحیں اور شیطانی قوتیں رہتیں تھیں جو کہ انسانی گوشت اور خون کی دلدادہ تھیں اور وہ آس پاس کی بستیوں سے انسانوں کو پکڑ کر لے جاتیں تھیں جبکہ انہی پہاڑوں میں ایک جندرانی نامی فقیر عورت بھی رہتی تھیں جس نے یہ سب دیکھا اور حالات کا جائزہ لیا آخرکار وہ ان قوتوں سے جنگ کرنے کے نتیجے پر پہنچی، جنگ میں اس عورت کو اللہ تعالیٰ نے زبردست فتح دلائی اور کامیابی سے ہمکنار کیا، اس مائی جندرانی یا مائی پیر کی قبر بھی یہاں ہی واقع ہے، آج بھی عقیدت مند لوگ زیارت کیلئے حاضر دیا کرتے ہیں اورتیسری کہانی یا قضہ گوئی کے مطابق یہاں جنات موجود تھے جو اکثر وہاں لوگوں پر حملہ آور ھوا کرتے تھے یہ زمانہ پیغمبر سلیمان علیہ السلام کا بتایا جاتا ہے اس زمانے میں یہاں ایک بستی تھی اس بستی میں ایک بادشاہ بھی رہتا تھا بادشاہ کی ایک خوبصورت،حسین و جمیل اور نوجوان صاحبزادی تھی جس کا شہزادی بدیع الجمال نام تھا اس جمال رخ شہزادی پر جنات عاشق اور دیوانے ھوگئے کچھ عرصہ بعد وہ اس کو اٹھا کر لے گئے جس سے شہزادی کے بادشاہ والد کو تشویش، پریشانی اور فکر ھوئی بادشاہ نے شہزادی کی بازیابی کیلئے وہاں بستی کے لوگوں اور دیگر شہزادوں کی مدد سے خوب کوششیں کی،کئی جان سے گئے اور کئی زخمی ھوئے، تمام تر محنت کے وہ سب ناکام رہے مگراسی مقصد میں ایک انتہائی بہادر اور دلیر سیف الملوک نامی شہزادے نے سخت جدوجہد کے بعد کامیابی اپنے نام کر لی اس نے کئی دن تک بنا کسی شکست کے جنات سے اپنی جنگ جاری رکھی اور شہزادی کو جنات سے آزاد کروا لیا۔
قارئین کرام شہر روغان کے شواہد اس بات کی چیخ چیخ کر یہ گواہی دے رہے ہیں کہ یہاں بھی اللہ کی ایک مخلوق کی آبادی اور بسرا تھا جس نے شہر کو زمانے کے حساب سے بسا رکھا تھا اور زندگی کی کئی رنگین، حسین شامیں گزری ھوئی ھونگی، بے شمار خوبصورت پری جمال شاہ زادیاں،شہزادے اور بادشاہ رہے ہو نگے، بستی میں لازوال عشق و محبت کی لاتعداد داستانیں بھی بیتی ہوگی۔ کھیت،کھلیان،میٹھے پانی کے چشمے،بہتے جھرنے، پھلوں کے خوشے الغرض زندگی اپنے رنگوں کے ساتھ جوبن پہ گزری ہوئی ہوگی مگر افسوس کہ زندگی کے چرخے نے اسے شہر غاراں بنا دیا۔انگریز گزٹ کے مطابق 1947 میں ان غاروں کی تعداد 1500 کے قریب تھی مگر اب یہ محض 500 کے قریب تعداد میں رہ گئے ہیں حکومت بلوچستان کو چاہیئے کہ وہ اس شہر کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کرے اور آثار قدیمہ کے حوالے کر دے تاکہ یہ شہر مزید برباد و تباہ ھونے سے بچ جائے اور آنے والی نسلیں اس قیمتی اثاثے دیکھ پائیں۔