پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف بہت قربانیاں دی،افغان مسئلے کا حل افغانوں نے خود کرنا ہے،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

اسلام آباد:وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں، ہم کسی دہشت گرد تنظیم یا اس کے سربراہ کی کبھی حمایت نہیں کر سکتے ،ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں،ہم نے ہر فورم پر مصالحانہ کردار ادا کیا،افغان مسئلے کا حل افغانوں نے خود کرنا ہے،اگر افغانستان 90 کی دہائی میں جاتا ہے تو دبائو پاکستان پر یقینا ً بڑھ سکتا ہے اور افعان مہاجرین کی تعداد بڑھ سکتی ہے،قومی ادارہ صحت میں تقریب سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ آج این آئی ایچ میں جس طرح ڈپلومیٹک کور کیلئے ویکسینیشن کا اہتمام کیا گیا وہ قابل ستائش ہے ۔افغانستان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی حکمت عملی واضح ہے،ہماری خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو،ہم نے ہر فورم پر مصالحانہ کردار ادا کیا،ترکی میں 44 کے قریب وزرائے خارجہ اور دس کے قریب سربراہان مملکت موجود تھے،آج دنیا بھر میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کو سراہا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے افغان وزیر خارجہ حنیف آتمر اورسابق افغان وزیر خارجہ اور اعلیٰ سطحی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے ملاقات اور افغان امن عمل پر بات چیت کا موقع ملا،ان کی گفتگو میں مجھے تشویش اور فکر دکھائی دی۔میں نے افغان وزیر خارجہ سے کہا کہ ہم امن کی کاوشوں میں شراکت دار ہیں لیکن شراکت داری کیلئے اعتماد کا ہونا ضروری ہے،اگر امریکہ جا کر آپ نے ماضی کا راگ الاپنا ہے تو آپ کو اور خطے کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ میری ترکی میں تاجکستان، ازبکستان کرغزستان، کویت اور قطر کے وزرائے خارجہ سے ملاقات ہوئی،سب سیاسی حل کی بات کر رہے ہیں۔غیر ملکی فوج کے انخلا ء سے متعلق وزیر خارجہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء 60 فیصد مکمل ہو چکا ہے اور ابھی سلسلہ جاری ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں کیونکہ افغانستان کے امن سے ہمارا مفاد جڑا ہوا ہے،افغانستان میں قیام امن سے ہمارا روابط کے فروغ اور معاشی استحکام کا خواب مکمل ہو سکتا ہے،تاہم افغان مسئلے کا حل افغانوں نے خود کرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت دو سوچیں کارفرما ہیں،ایک طبقہ اسلامک امارات آف افغانستان اور دوسرا ری پبلک آف افغانستان بنانا چاہتا ہے،فیصلہ افغان قیادت کو کرنا ہے اور امتحان افغان قیادت کا ہے۔ہماری دعا ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہوں لیکن ایک طبقہ اپنی ناکامیوں سے فرار کی کوشش میں مصروف ہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کا مقصد افغانستان میں بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورک کی بیخ کنی تھا اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان اس بات کا معاہدہ ہونا کہ وہ افغان سر زمین کو کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے یہ بھی پیشرفت ہے ۔انہوں نے افغان آرمی کو ٹریننگ دی اور ان کا انفراسٹرکچر کھڑا کیا ،اب افغان حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ اپنا دفاع خود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری سوچ واضح ہے،وزیر خارجہ نے کہا کہ میں پاکستان کا ترجمان اور نمائندہ ہوں میں ہمیشہ پاکستان کی بات کروں گا،طالبان کے اپنے ترجمان ہیں۔ میں نے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے الزامات کا جواب بطور پاکستانی دیا،بطور وزیر خارجہ میرا جواب دینا بنتا ہی نہیں۔انہوں نے کہا کہ کوئی میری قوم کی توہین کرے تو میں کیسے خاموش رہ سکتا ہوں؟پوری پاکستانی قوم نے ان الزامات کو مسترد کیا اور بہت سے افغانوں نے بھی ان کے بیانات کو مناسب نہیں سمجھا۔