بلوچستان دہشتگردی کے نشانے پر اور ہم؟؟

تحریر: عبداللہ جان صابر ۔۔۔
پاکستا ن کی دس فیصد آبادی پر مشتمل رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کو اپنی خصوصیات کی بناء پر سونے کی چڑیا سے تشبیہہ دی جاتی ہے ۔خطہ بلوچستان کورقبے کے تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، ڈنمارک، ہالینڈ،بلجیم اور یورپ کے کئی دیگر ترقی یافتہ ممالک سے بڑاہے ۔اس سے بڑھ کر یہ کہ بلوچستان ایک ایسی میری ٹائم ریاست(یعنی وہ ریاست کہ جس کا وسیع رقبے کے ساتھ کشادہ ساحلِ سمندر بھی ہو) ہے کہ جس کے پاس کم و بیش 950 کلومیٹر ایسا ساحل سمندر ہے جو کئی ممالک کے لیے بطور ٹرانزٹ استعمال ہونے کے کام آسکتا ہے ۔اس خطہ میں سونے، چاندی، تیل، گیس، انتہائی مہنگے ماربل، کوئلے اور مختلف دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔اسی وجہ سے پوری دنیا میں اس کی اہمیت و افادیت کو مانا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا یہ اہم ترین صوبہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے صنعتکاروں و سرمایہ کاروں کی دلچسپی کا محور بھی رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں اقتصادی راہداری کے سبب اس کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ دشمن قوتوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے بلوچستان کے حوالے سے منفی سوچ پر مشتمل سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع کر دیا ہے۔ہمارا حریف پڑوسی ملک کبھی بھی نہیں چاہتا کہ سی پیک کا تاریخی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔اب بھی اس سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان کو اندورنی طور پر غیر مستحکم کرنے کی سازشین عروج پر ہیں۔جب سے گوادر پورٹ اور سی پیک پر ترقیاتی کام شروع ہوا ہے تب سے بلوچستان بیرونی اور اندرونی دشمنوں کے نرغے میں ہے۔خصوصی طور پر گوادر کرکٹ سٹیڈیم کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہونے کے بعد تو دشمنان پاکستان سے اس مٹی کی ترقی اور خوشحالی ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ اگر ہم پچھلے چند مہینوں کی بات کریں تو 15 اکتوبر 2020 کو گوادر کی تحصیل اورماڑہ میں او جی ڈی سی ایل کے قافلے پر نامعلوم شرپسندوں نے حملہ کیا جس میں کئی سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے،25 اکتوبر 2020 کو کوئٹہ کے نواحی علاقہ ہزار گنجی میں دھماکے کے نتیجے میں 3 افراد جان بحق اور 7 زحمی ہوگئے ،27 دسمبر 2020 کو ضلع ہرنائی میں شدت پسندوں نے فرنٹیئر کور کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں 7 اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا،اسی طرح 3 جنوری 2021 کو ضلع بولان کی تحصیل مچھ میں دہشتگردوں نے فائرنگ سے 11 کان کن شہید کردئیے،5 فروری 2021 کو کوئٹہ اور سبی میں بم دھماکوں میں دو افراد شہید اور 19 زحمی ہوگئے حکام کے مطابق دونوں دھماکوں کا ہدف یوم یکجہتی کشمیر کی ریلیاں تھیں اور اب حال ہی میں کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں بم دھماکہ ہوا جسکے نتیجے میں 5 افراد شہید اور 12 زحمی ہوگئے۔یہ تو صرف چند مہینوں کے اعدادوشمار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دشمن اپنی بھرپور کوشش کررہی ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی پھیلائے اور ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر افراتفری کی صورتحال بھی پیدا کریں۔دوسری جانب ہم ایک قوم بننے اور وطن عزیز کو دشمن کے ناپاک عزائم سے محفوظ رکھنے کی بجائے پارٹیوں ،قومیت ،مذہب اور مسلک ،فرقوں اور ذات پات کی کمزوریوں میں تقسیم ہوچکے ہیں،ہم بھول گئے ہیں کہ آزادی کی اہمیت اور خودمختاری کا فائدہ کیا ہوتا ہے،ہم کس مقصد کیلئے آزاد ہوچکے ہیں اور کہاں جارہے ہیں؟
اگر دیکھا جائے تو وطن عزیز کا معزز طبقہ (سیاستدان) وزارتِ عظمیٰ کی خاطر پاکستان کی توقیر اور اہمیت بھول چکے ہیں،ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں،غدار،بیرونی ایجنٹ،چور،ڈاکو اور اسطرح کے القابات سے ایک دوسرےکو پکارا جاتاہے جس کیوجہ سے ہر وقت اسمبلیوں میں مچھلی بازار گرم رہتا ہے،قانون سازی کی بجائے حکومت اور اپوزیشن صرف ایک دوسرے پر الزامات کے پیسے اور مراعات لیتے ہیں لیکن ان سیاسی مشران کو معلوم نہیں ہے کہ جس ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو جاتا ہے تو وہاں دشمن کو پھیر جمانے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ اسمبلیوں کے اختلافات اور الزامات نچلے درجے کے ورکر تک پہنچ جاتے ہیں،پھر یہی سے دشمن کو موقع ملتا ہے کہ ان نابلد اور جذباتی کارکنان کو گراؤنڈ پر اور ڈیجیٹل میڈیا میں اپنے ملک،سیکیورٹی اداروں اور جاری ترقیاتی منصوبوں کے خلاف استعمال کریں جو آج کل پاکستان میں واضح طور پر یہی جنگ جاری ہے۔اس کیساتھ ساتھ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور بالخصوص بلوچستان کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی خاطر قوم پرستی اور لسانیت کے نام پر ملک دشمن عناصر نے شرپسند تحریکیں بھی شروع کررکھی ہیں جن کی مدد سے نہ صرف صوبوں اور مختلف اقوام کے مابین نفرت پھیلایا جاتا ہے بلکہ اداروں کو بھی ٹارگٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی،کیونکہ جن ممالک میں قومی یکجہتی ختم ہو جاتی ہے اور وہاں کے سیکیورٹی ادارے کمزور پڑجاتے ہیں تو پھر ایسے ممالک پر قابض ہونا اور وہاں کی عوام کو غلام بنانے پر پلک جھپکنے جتنا وقت لگتا ہے۔ہم سب کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے سیکیورٹی اداروں کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور آنے والی نسل کو ایک پرامن اور خوشحال پاکستان دینے کا عزم کریں۔