ننھی پریوں کو انصاف آخر کب ملے گا؟

تحریر:ذیشان کاکاخیل ۔۔۔۔۔۔
ہمارے ملک میں انصاف کا حصول اتنا مہنگا کیوں؟آج سے 1 سال 2 ماہ قبل نوشہرہ کے علاقے زیارت کاکاصاحب میں ایک ایسا دل خراش واقعہ پیش آیا تھا جو لگ رہا تھا کہ اسے بھولنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا،اس واقعہ کے بعد علاقے میں جوغم و غصہ سے بھرے مناظر تھیں اس سے یوں معلوم ہو رہا تھا کہ ملزمان کو سزا دئیے بغیر یہ لوگ دم نہیں لینگے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مرنے کے بعد انسان اور مرنے والوں کی راہیں جدا ہو جاتی ہیں،ہمارا کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو اس کو ہم بھول جاتے ہیں ،اور یہی ہوا کہ ہم اپنی بیٹی حوض نور کو توبھول گئے لیکن ان کے قاتلوں کو بھی بھول گئے،چند روز تک ہلہ گلہ اور فریاد کیا گیا اور اس کے بعد مکمل خاموشی اختیار کی گی۔2 ماہ میں انصاف کے دعوے کئے گئے لیکن 2 ماہ کی بجائے 1سال 2 ماہ گزر گئے لیکن ننھی حوض نور کے قاتلوں کواب تک سزا نہ دی گی ، اب بھی حوض نور کا روح انصاف کا طلب گار ہے، اب بھی وہ ننھی پری پکارتی ہیں کہ انہیں کون انصاف دے گا،لیکن اس معاملے میں ہم سب بے بس اور بے اختیار ہے، کیونکہ جس کے پاس اختیار ہے وہ کچھ نہیں کر سکتے تو ہم کیا کر پائینگے۔ وزیر اعلی محمود خان نے متاثرہ خاندان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ معصوم بچی کے قاتلوں کو 2 ماہ کے اندر اندر عبرتناک سزا دی جائے گئی لیکن 14 ماہ گزر گئےاور ملزمان کواب تک سزا نہیں مل سکی ہے۔ معصوم خوض نور 7سال کی تھی جب انہیں مدرسے جاتے ہوئے درندگی کا نشانہ بنایا گیا،دین کا علم حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکلی اور پھر کبھی گھر واپس نہ جا سکی،ننھی کلی حوض نور کو 18جنوری 2020کو نوشہرہ کے علاقے زیارت کاکاصاحب میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر بے دردی سے قتل کر دیا تھا،جس کے بعد وزیر اعلی محمود خان نے نوشہرہ کے علاقے زیارت کاکاصاحب کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان کے ساتھ تعزیت کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ننھی کلی کے قاتلوں کو 2ماہ کے اندر اندر سزا دی جائے گی۔حوض نور کے والد اسجد کے مطابق وہ اب بھی ملزمان کو سزا دینے کے خواہ ہے،ان کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے وعدے اور نعرے تو بہت لگائے لیکن حقیقت میں کوئی عملی کارروائی نہیں کی ہے،ان کے مطابق ملزمان ابدار اور رفیق اب بھی زندہ ہے اور اپنی رہائی کی درخواستیں دے رہے ہیں،والد اسجد کے مطابق انہوں نے ملزمان کو خود پکڑ کر پولیس کے حوالے ہی اس لئے کیا کہ انہیں انصاف ملے گا،لیکن اب تک ان کو انصاف نہیں ملا۔انہوں نے وزیر اعظم پاکستان عمران ،آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں جلد از جلد ملزمان کو قانون کے مطابق سزا سنائی جائے تاکہ ان کے روح کو سکون مل سکے۔دوسری جانب علاقہ مشران نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کے حکومت میں حوض نور کے لواحقین انصاف سے محروم ہیں،ان کے مطابق اگر حکومت نے ابدار اور رفیق کو نشان عبرت نہیں بنایا تو اس قسم کے واقعات کی روک تھام نہیں کی جاسکے گی۔اسجد کے مطابق دولت بھی خرچ کی ،وقت بھی لگایا انصاف کے حصول کے لئے ہر کسی کا دروازہ کٹکھٹایا لیکن انصاف نہ مل سکا۔میرا سوال یہ ہے کہ مدینے کی ریاست میں تو انصاف کا حصول اتنا مہنگا اور مشکل نہیں ہوتا۔پھر ننھی کلی کے قاتلوں کو سال بعد سزا کیوں نہیں دی گئی ۔کیا انصاف کا حصول اتنا مہنگا ہوگا؟کیا ہم حق اور سچ میں فرق اب بھی نہیں کر پا رہے ہیں ؟ کیا ہماری موجودہ اور آنے والی نسل ایسی طرح درندگی کا نشانہ بنتے ​رہیں گے؟