آپریشن ردالفساد کو 4 سال مکمل، دہشتگردی سے سیاحت کا سفر انتہائی کٹھن تھا، میجر جنرل بابر افتخار

روالپنڈی: پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ آپریشن ردالفساد کو چار مکمل ہو گئے ہیں۔آج ہر پاکستانی آپریشن ردالفساد کا حصہ ہے۔آپریشن ردالفساد کا مقصد ملک میں امن کا قیام تھا۔آپریشن ردالفساد کا دائرہ پورے ملک پر محیط تھا۔ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ہے۔اس آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا۔تفصیلات کے مطابق آپریشن ردالفسادکو4سال مکمل ہونے پر ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل بابر افتخار نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ پریس کانفرنس کا مقصد قوم کو اس کے ثمرات سے آگاہی دینا ہے۔میجرجنرل بابرافتخار کا کہنا تھا کہ آپریشن ردالفساد22 فروری2017 کوشروع کیاگیا، ردالفساد اس لیے مختلف ہے کہ یہ پورے ملک میں امن کیلئے تھا، اہم اہداف میں عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کرنا تھا، اہم اہداف میں دہشتگردوں کا خاتمہ شامل تھا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ردالفساد کا بنیادی محورعوام ہیں، ردالفساد اس وقت شروع کیاگیا جب دہشت گردوں نے طول وعرض میں پناہ لینے کی کوشش کی، دہشت گردوں نے عام شہریوں بچوں،خواتین کو بھی نشانہ بناکر زندگی کو مفلوج کرنے کی ناکام کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ
آپریشن ردالفساد کا مقصد کاؤنٹر ٹیرارزم کے 3 بنیادی نکات ہیں، ان نکات میں طاقت کا استعمال صرف ریاست کی صوابدید ہو، آپریشن کامقصد موثر بارڈر مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے ویسٹرن زون کا استحکام تھا اور ملک بھرمیں دہشتگردوں کی سپورٹ بیس کا خاتمہ تھا۔چار سالوں کے دوران ہونے والے آپریشن کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ردالفسار بلڈ اینڈ ٹرانسفرفیس کا کاز ہے، آپریشن کا مقصد دہشت گردوں کو مکمل غیر موثر کرنا تھا، آپریشن ردالفساد کے تحت کومبنگ اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے گئے اور ابتک 3 لاکھ 75 ہزارسے زائد آپریشنز کئے گئے، جس میں سی ٹی ڈی ،پولیس ،رینجرز،آئی ایس آئی ،ایم آئی نے بھرپورکرداراداکیا۔صوبوں میں آپریشنز کے اعدادو شمار بتاتے ہوئے میجرجنرل بابرافتخار کا کہنا تھا کہ پنجاب میں 34ہزار سےزائد آپریشنز ، سندھ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد آپریشنز ، بلوچستان میں 80ہزار سےزائدآپریشنز اور کے پی میں 92ہزار سے زائد آپریشنز کئے گئے، اب اس کااعتراف دنیابھی کررہی ہے، آپریشن میں تمام اداروں نے بھرپورکردار ادا کیا۔انھوں نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز نےانتھک محنت سے بڑے نیٹ ورک کو ختم کیا، آپریشن ردالفساد کے دوران خیبر فور آپریشن بھی کیا گیا، ان 4 سالوں میں 5 ہزار سے زائد تھریٹ الرٹ جاری کیے گئے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں گزشتہ سال اگست میں آپریشن کیاگیا اور 72ہزار سے زائد غیرقانونی اسلحہ برآمد کیاگیا، پاک افغان بارڈر پر 1684 کراس فائر واقعات ہوئے۔بارڈر منیجمنٹ سے متعلق میجرجنرل بابرافتخار نے کہا کہ ایف سی کے 58نئے ونگز قائم کئے جا چکے،مزید15کاقیام باقی ہے جبکہ 2611کلومیٹرپاک افغان بارڈرپرباڑکا83فیصدکام مکمل کیاجاچکا ہے ،باڑ منصوبے کے تحت497فورٹس تعمیرہوچکےہیں، بارڈر منیجمنٹ ڈویژن وزارت داخلہ کے ماتحت ہے ، 72کلو میٹر سے زائد علاقے سے بارودی سرنگیں صاف کردی گئیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بارڈرکنٹرول کےتحت ٹرمینل سے 33 فیصدنقل وحرکت ہو رہی ہے اور 48ہزارسےزائد بارودی سرنگیں برآمد کرچکے ہیں، آپریشن کو سپورٹ اور لوگوں کی حفاظت کیلئے بہت سی چیک پوسٹیں قائم کی گئیں، 450چیک پوسٹیں 250سے بھی کم رہ گئی ہیں، 37ہزار 428 پولیس اہلکار کو ٹریننگ دیکر قبائلی علاقوں میں لگایا جائے گا، پاک افواج نے بلوچستان میں3ہزار865لیویز اہلکاروں کو ٹریننگ دی۔نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اقدامات کئےگئے، 344 دہشت گردوں کو سزائے موت دی گئیں جن میں 58پرعملدرآمدہوچکا، 78سےزائد تنظیموں اوردہشت گردوں کیخلاف بھرپور ایکشن کیا گیا، دہشتگردوں کے ایسٹ کو فریز،نقل وحرکت پر پابندی لگائی گئی۔میجرجنرل بابرافتخار کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی نقل وحرکت اور اغوابرائےتاوان کےعمل پرمؤثر کام جاری ہے ، بلوچستان،جی بی میں نوجوانوں کو انتہا پسندی پر مائل کرنے کےعزائم کوناکارہ بنایا گیا اور انتہاپسندی کی طرف مائل 2005لوگوں کو قومی دھارے میں واپس لایا گیا۔کراچی کے حوالے سے انھوں نے کہا کراچی میں آپریشن کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال میں واضح بہتری آئی، کراچی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کاحامل ہے اور عالمی کرائم انڈیکس میں چھٹے سے103 نمبر پر آگیا۔دہشت گردی سے سیاحت تک کے سفر سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے سیاحت کا یہ سفر انتہائی کٹھن تھا ، جوعلاقے دہشت گردی کا شکار تھے اب وہاں اقتصادی کام ہورہے ہیں، کے پی قبائلی اضلاع میں31بلین روپے کی لاگت سے831 منصوبوں کا آغاز ہوچکا ہے۔میجرجنرل بابرافتخار نے کہا کہ ان 4سال میں 1200سے زائدشدت پسند ہتھیار ڈال چکے ہیں، افواج پاکستان مشکلات کے باوجود اپنے کام میں مصروف رہی، نیشنل سیکیورٹی کے جتنے ایشوز آئے اس پر میڈیا نے بھرپور تعاون کیا۔یوم پاکستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا اگلے ماہ 23مارچ کویوم پاکستان آرہاہے ، یوم پاکستان پر بھرپور قومی یکجہتی کیساتھ پریڈ کاانعقاد ہوگا ، عوام کے تعاون سے ہم ہر چیلنج پر قابو پائیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ امن کا سفر الحمد اللہ جاری ہے ،آپریشن ردالفساد صرف ایک ملٹری آپریشن نہیں تھا اس کا دائرہ کار پورے ملک پر محیط تھا، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد بہت حد تک کی جاچکی ہے اور نیشنل ایکشن پلان کےتحت کچھ چیزوں پر کام باقی ہے ان پر بھی کام ہورہاہے، اورتیزی سے ہورہاہے۔میجرجنرل بابرافتخار کا کہنا تھا کہ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کام جاری ہے، ہائبرڈ وار فیئر کی مد میں آنیوالے چیلنجز پر حکومتی سطح پر بھی اقدامات ہوئے ہیں، بارڈر منیجمنٹ پاکستان کو محفوظ کرنے کیلئے اہم تھا۔افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ہمیں ادراک ہے کہ افغانستان کےامن کیساتھ ہی پاکستان کا امن جڑا ہے، افغان امن کیلئےپاکستان نے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے جسے سراہاجارہاہے، چمن بارڈر پر ٹرانزٹ ٹریڈ سسٹم جلد بحال کردیا جائے گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ بھارت سے متعلق ڈوزیئر کو عالمی برادری کے ہر فورم پر سنجیدہ لیاگیاہے، دہشت گردوں کو کافی حد تک ڈینٹ لگایا جا چکا ہے مزید کام جاری ہے ، نیشنل ایکشن پلان کے مکمل اہداف کو حاصل کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ فیٹف سےمتعلق پراسیجرکےتحت آبزرویشن پربہت کام ہوا ہے ، بلڈنگ ٹرانسفر فیزابھی ختم نہیں کیا ہے ، ہر واقعے کو دہشت گردی نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ دہشت گردی سے نہیں جوڑنا چاہیے ،امن وامان کا بھی معاملہ ہے۔میجرجنرل بابرافتخار کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی قیاس آرائیں نہیں ہونی چاہیے، ان چیزوں میں کوئی صداقت نہیں ہے ، ان چیزوں کےبارے میں سوچنا یاقیاس آرائیاں نہیں ہونی چاہیے، فوج میں اعلیٰ سطح پر تقرریاں اتنی شارٹ ٹرم نہیں ہوتیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا قربانیاں صرف فوج یا رینجرز، پولیس نے نہیں دیں لیکن زیادہ قربانیاں عوام نے دی ہیں ، فوج اکیلی کچھ نہیں یہ عوام کی بدولت ہوتی ہے ، عوام ساتھ کھڑی ہے تو فوج کچھ بھی کرسکتی ہے اور اگر عوام کی حمایت نہ ہوتو کچھ بھی نہیں کیاجاسکتا۔