امریکی سائبر سکیورٹی کمپنی نے پاکستان میں حساس اہداف کی جاسوسی کرنے والے بھارتی ہیکرز کا بھانڈا پھوڑ دیا

اسلام آباد : بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں پھر چاہے وہ ایل او سی پر فائرنگ کے جھوٹے دعوے ہوں، یا پھر کسی دہشتگردی کا الزم پاکستان پر بغیر تحقیق کے عائد کرنے کا معاملہ ہو، بھارت اپنے بھونڈے دعووں اور الزام تراشیوں سے کسی طور باز نہیں آتا۔ تاہم اب امریکی سائبر سکیورٹی کمپنی نے پاکستان میں حساس اہداف کی جاسوسی کرنے والے بھارتی ہیکرز بے نقاب کردیئے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق سان فرانسسکو میں قائم سائبر سکیورٹی کمپنی لک آؤٹ نے کے مطابق بھارتی فوج سے وابستہ ہیکرز کی ایک ٹیم پاکستان اور کشمیر کے اندر حساس اہداف کی جاسوسی کے لیے موبائل نگرانی کے ٹولز کا استعمال کررہی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس ہیکر گروپ کو کنفیوشس کہا جاتا ہے، جو جنوبی ایشیاء میں لیگل ایپلی کیشنز اور ویب سروسز کی کمانڈرنگ کرنے اور جاسوسی کے ٹولز اور مالویئر سافٹ ویئر کو مربوط کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔لک آؤٹ کی رپورٹ کے مطابق ، 2017ء اور 2020ء کے درمیان ، کنفیوشس نے متعدد مواقع پر پاکستان کی مسلح افواج ، پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی ، اور پاکستان جوہری توانائی کمیشن کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا تھا۔ سائبر سکیورٹی کمپنی لک آؤٹ انک کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت نے پاکستان اور کشمیر میں جغرافیائی سیاسی اہداف کی جاسوسی کے لیے بھارتی فوج سے تعلقات رکھنے والے ایک ہیکنگ گروپ نے موبائل نگرانی کے لیے ایک ٹول بنایا۔ہیکر گروپ متاثرین کو سکیورٹی ٹولز اور ایپلی کیشنز کو ہیک کرکے صارفین کے ٹولز،ریکارڈ شدہ فون کالز ، کال لاگز، کنٹیکٹس ، جغرافیائی محل وقوع ، تصاویر اور وائس نوٹ کا ڈیٹا حاصل کرلیتا ہے۔ کمپنی نے زیادہ تر 156 ہائی پروفائل پاکستانی اہلکاروں کے موبائل کو نشانہ بنایا اور غیر محفوظ سرورز پر ڈیٹا محفوظ کیا گیا، محققین نے حال ہی میں سرورز کو تلاش کیا اور بتایا کہ زیادہ تر صارف جن ڈیٹا تک رسائی حاصل کرتے ہیں وہ شمالی بھارت میں مقیم ہیں۔لک آؤٹ اسٹاف سکیورٹی انٹلیجنس انجینئر ، اپرووا کمار کا کہنا تھا کہ کنفیوشس کے تکنیکی اوزار اور مالویئر اتنے اعلٰی درجے کی نہیں ہیں۔ محققین نے دریافت کیا کہ ہیکرز نے پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی ، پاکستان جوہری توانائی کمیشن اور نامعلوم تیسرے فریق کے عہدیداروں کے مابین 2017ء اور 2018ء کے درمیان واٹس ایپ چیٹ کا مواد چوری کیا۔ اپرووا کمار نے مزید بتایا کہ اس کی تحقیق سے یہ پتہ معلوم ہوا ہے کہ جاسوسوں کی مہم 2018ء میں اُس وقت بڑھ گئی تھی ، جب نامعلوم ہیکرز نے تجارتی نگرانی کے سامان فراہم کرنے والے ، ریٹنا-ایکس اسٹوڈیوز کی خلاف ورزی کی تھی۔