جعلی پولیس مقابلے میں شہید نقیب اللہ محسود کی شہادت کو تین سال گزر گئے، لیکن انصاف نہ مل سکا

پشاور:جعلی پولیس مقابلے میں شہید نقیب اللہ محسود کی شہادت کو آج تین سال گزر گئے، 13 جنوری سا ل 2018 کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں شہید کیا۔27 سالہ نقیب اللہ محسود کی شہادت کے بعد ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس میں انہیں ایک ماڈل کے انداز میں دیکھا گیا اور پولیس کی جانب سے اسے دہشت گرد قرار دے کر شہید کیاگیا۔ نقیب اللہ محسود کی شہادت کے بعد کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں نقیب اللہ محسود کے حق اور پولیس کے خلاف احتجاج کیا گیا اور کئی روز دھرنا جاری رہا۔ سپریم کورٹ نے بھی جعلی مقابلے کا نوٹس لیا اور پھر ریٹائر ہوجانے والے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر کے خلاف دو مقدمات درج کیے۔تاہم تین برس بعد بھی اس کیس کو اب تک حتمی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا ہے اور تحقیقات اب بھی جاری ہیں لیکن اس کی رفتار بہت سُست ہے۔ ‏آج 13 جنوری نقیب اللہ محسود کی تیسری برسی ہےآج سےتین سال پہلےراؤ انوار کی سربراہی میں ایک جعلی پولیس مقابلےمیں نقيب اللہ کوشہیدکیا گیا تھا تین سال گزرگئےمگر نقیب اللہ محسودقتل کیس کےاہم کردارراؤ انوار کو سزانہیں دی گئی آج بھی قاتل راؤ انوار سرکاری پروٹوکول میں آزادگھوم رہاہے۔نقیب اللہ محسود قتل کیس کے تین سال گزر گئے۔ لیکن آج بھی شہید نقیب اللہ محسود ہو انصاف نہ مل سکا۔کراچی میں نقیب اللہ کے پولیس مقابلے میں شہادت کے بعد ریاست مخالف تحریک پی ٹی ایم نے قومیت کو بنیاد بنا کر ہی پاکستان مخالف اپنا ایجنڈا آگے بڑھایا، آج وہی کارڈ فوج اور ملکی سلامتی کے اداروں کیخلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک عالمی سازش اور پاکستان مخالف ایجنڈا ہے۔جو ملک کے اندر انتشار پھیلانے پر تلے ہو ئے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف سیاسی پارٹیوں اور مفاد پرست تنظیموں نے نقیب اللہ محسود کا نام اپنی اپنی مفادات کے لئے خوب استعمال کیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ نقیب اللہ کیس کو اٹھا کر نکلی لیکن مشہور ہونے پر اپنے پروپیگنڈوں کا رخ دفاعی اداروں کی طرف موڑ دیا۔ اور اب ان کے جلسوں میں نقیب اللہ کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ اسی طرح سندھ میں حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری راؤ انوار کو سزا دینے کے بجائے اپنا بہادر بچہ کہنے لگے۔ تو پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ پیپلز پارٹی قیادت کے ساتھ گھل مل گئے۔